کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 161
’’میرا بیٹا فوت کیا گیا ہے۔[1] پس آپ تشریف لائیے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں) سلام اور (ساتھ یہ) پیغام بھیجا: ’’إِنَّ لِلّٰہِ مَآ أَخَذَ ، وَلَہٗ مَآ أَعْطٰی، وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی، فَلْتَصْبِرْ ، وَلْتَحْتَسِبْ…الحدیث۔ [بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو انہوں نے لے لیا ہے اور انہی کے لیے ہے، جو انہوں نے عطا فرمایا۔ ہر چیز ان کے ہاں مقررہ مدت کے ساتھ ہے، سو تم صبر کرو اور اجر و ثواب طلب کرو …الحدیث ج: حضرت اُمّ سلیم نے اپنے بیٹے کے فوت ہونے پر یہی حقیقت اپنے شوہر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہما کو ایک مثال کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ امام مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’ابوطلحہ کا اُمّ سلیم (یعنی ان کے بطن) سے پیدا ہونے والا، ایک بیٹا فوت ہوا، تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: ’’ابوطلحہ سے ان کے بیٹے کے بارے میں کوئی گفتگو نہ کرے، یہاں تک کہ میں ان سے بات نہ کرلوں۔‘‘ انہوں (یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا: ’’سو وہ آئے، تو انہوں (یعنی اُمّ سلیم) نے انہیں کھانا پیش کیا، تو انہوں نے کھایا پیا۔‘‘ انہوں (یعنی انس رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا: ’’پھر انہوں نے خود کو پہلے سے زیادہ اچھے انداز میں ان (یعنی شوہر) کے لیے تیار کیا۔ انہوں ابوطلحہ( رضی اللہ عنہ ) نے ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے۔ جب انہوں نے سمجھا، کہ وہ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے فارغ
[1] مراد یہ ہے، کہ وہ فوت ہوجانے کے قریب ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۱۵۶)۔