کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 147
وَخَالِقُ جَمِیْعِہٖ دُوْنَ کُلِّ آلِہَۃٍ وَمَعْبُوْدٍ۔‘‘1[1] ’’اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشادِ (گرامی) {لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ} سے مقصود یہ ہے، کہ وہ ان تمام (چیزوں) کے کسی شریک اور مدِّمقابل کے بغیر مالک اور دیگر تمام معبودانِ (باطلہ) کے بغیر خالق ہیں۔‘‘ ۲: امام بغوی نے تحریر کیا ہے: ’’مِلْکًا وَّخَلْقًا۔‘‘[2] ’’ملکیت اور تخلیق کے اعتبار سے (جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے، انہی کے لیے ہے)۔‘‘ ۳: قاضی ابن عطیہ نے قلم بند کیا ہے: ’’أَيْ بِالْمُلْکِ، فَہُوَ مَالِکُ الْجَمِیْعِ وَرَبِّہٖ۔‘‘[3] ’’یعنی ملکیت کے ساتھ، لہٰذا وہ تمام (چیزوں) کے مالک اور رب ہیں۔‘‘ ۴: حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے: ’’إِخْبَارٌ بِأَنَّ الْجَمِیْعَ عَبِیْدُہٗ ، وَفِيْ مِلْکِہٖ، وَتَحْتَ قَہْرِہٖ وَسُلْطَانِہٖ۔‘‘[4] ’’(اس بات کی) خبر دی گئی ہے، کہ سب ان کے غلام، ان کے زیرِ ملکیت اور ان کے قہر و سلطان کے تحت ہیں۔‘‘ ۵: علامہ جلال الدین المحلّی نے بیان کیا ہے: ’’مِلْکًا وَّخَلْقًا وَّعَبِیْدًا۔‘‘[5]
[1] تفسیر الطبري ۵/۳۹۵۔ [2] تفسیر البغوي ۱/۲۳۹۔ [3] المحرّر الوجیز ۲/۲۷۶۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۳/۲۷۳۔ [4] تفسیر ابن کثیر ۱/۳۳۱۔ [5] تفسیر الجلالین ص ۵۶۔