کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 144
’’إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنَامُ، وَلَا یَنْبَغِيْ لَہٗٓ أَنْ یَّنَامَ، یَرْفَعُ الْقِسْطَ وَیَخْفِضُہٗ، وَیُرْفَعُ إِلَیْہِ عَمَلُ النَّہَارِ بِاللَّیْلِ، وَعَمَلُ اللَّیْلِ بِالنَّہَارِ۔‘‘[1] [بلاشبہ اللہ تعالیٰ سوتے نہیں اور سونا ان کے شایانِ شان نہیں۔ میزان کو اونچا اور نیچا کرتے ہیں۔ [2] دن کا عمل ان کے رُوبرو رات کو اور رات کا عمل دن کو پیش کیا جاتا ہے۔[3]] اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے، کہ اللہ تعالیٰ سوتے نہیں اور سونا ان کے شایان شان بھی نہیں۔ شرحِ حدیث: علامہ نووی لکھتے ہیں: ’’فَمَعْنَاہُ أَنَّہٗ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی لَا یَنَامُ ، وَأَنَّہٗ یَسْتَحِیْلُ فِيْ حَقِّہِ النَّوْمُ ، فَإِنَّ النَّوْمَ اِنْغِمَارٌ وَّغَلَبَۃٌ عَلَی الْعَقْلِ یَسْقُطُ بِہِ الْإِحْسَاسُ ، وَاللّٰہُ تَعَالٰی مُنَزَّہٌ عَنْ ذٰلِکَ، وَہُوَ مُسْتَحِیْلٌ فِيْ حَقِّہٖ جَلَّ وَعَلَا۔‘‘ [4]
[1] صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب في قولہ علیہ السلام : ’’إن اللّٰہ لا ینام…، رقم الحدیث ۲۹۵۔ (۱۷۹) ۱؍۱۶۲۔ [2] مقصود یہ ہے، کہ اللّٰه تعالیٰ بندوں کے اپنے حضور پیش کردہ اعمال اور ان کے (لیے) نازل کردہ رزق کے میزان کو اوپر نیچے کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: النہایۃ في غریب الحدیث والأثر، مادۃ ’’قسط‘‘، ۴/۶۰)۔ [3] (دن کا عمل ان کے روبرو رات کو پیش کیا جاتا ہے…) یعنی دن کے اعمال، اس کے بعد آنے والی رات کے اوّلیں حصے میں اور رات کے اعمال، اس کے بعد آنے والے دن کے آغاز ہی میں، اللّٰه تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، کیونکہ محافظ فرشتے رات ختم ہونے کے بعد (بندوں کے) رات کے اعمال، دن کے اوّلیں حصے میں ،اوپرلے کر جاتے ہیں اور وہ دن کے ختم ہونے پر ان کے اعمال کو رات کے شروع میں اوپر لے کر جاتے ہیں۔ وَاللّٰہُ تَعَالیٰ أَعْلَم۔‘‘ (شرح النووي ۳/۱۳) [4] المرجع السابق ۳/۱۳۔