کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 134
۳: شمس و قمر اور شب و روز اپنی عظمت کے باوجود ربّ قیّوم کے نظام کی حرف بہ حرف پیروی کرتے ہیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اُس سے سرموانحراف نہیں کرتے۔ اے انسان! ربِّ قیّوم کی جانب سے قرآن و سنت میں تیرے لیے بھی ایک متعین کردہ نظامِ زندگی اور لائحۂ عمل ہے۔ کیا تیرے لیے شمس و قمر اور لیل و نہار کے طلوع و غروب اور آنے جانے میں عبرت و نصیحت نہیں، کہ اتنی بڑی مخلوقات ربّ قیوم کے نظام کی کس دقّت اور باریک بینی سے پابندی کر رہی ہیں اور تو کس طرح شترِ بے مہار… ۴: سمندر میں لوگوں کو لے جانے اور لانے کے لیے کشتی اور اسی نوعیت کی دوسری چیزوں کی نعمت ربِّ قیوم کے حکم سے ہے۔وہ جب چاہیں، اس نعمت کو زحمت میں اس طرح تبدیل کردیں، کہ وہ اپنے سوار ہونے والوں کے غرق ہونے کا سبب بن جائے اور پھر ربِّ قیّوم کے علاوہ کوئی داد رسی کرنے والا بھی نہ ہو۔ اے انسان! تو ربِّ قیّوم کی عطا کردہ نعمتوں پر سرکشی کیوں اختیار کرتا ہے؟ کیا کشتی کے معاملے میں تیرے لیے درس و تنبیہ نہیں، کہ جس ذات بلند و بالا کے فضل و کرم کے ساتھ وہ نعمت ہے، وہی ذات بزرگ و برتر اسی نعمت کو کسی بھی لمحے، تیری تباہی اور بربادی کا سبب بناسکتے ہیں؟ ح: اِسمِ مبارک [اَلْقَیُّوْمُ] کی شان وعظمت: علمائے امت نے ربِّ کریم کے اسمِ گرامی [اَلْقَیُّوْمُ] کے مقام و مرتبہ کو بھی بیان فرمایا ہے۔ ذیل میں دو علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱: قاضی ابن ابی العز حنفی لکھتے ہیں: ’’فَعَلٰی ہٰذَیْنِ الْاِسْمَیْنِ ۔ [اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ]۔ مَدَارُ الْأَسْمَآئِ