کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 121
[’’میں آپ کی عزت کے ساتھ پناہ طلب کرتا ہوں، وہ ذات، کہ ان کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جو ، کہ فوت نہیں ہوتے اور جنّ و انس فوت ہوتے ہیں۔‘‘] شیخ عبداللہ غنیمان [وَالْجِنُّ وَالْاِنْسُ یَمُوْتُوْنَ] کی شرح میں رقم طراز ہیں: ’’ اَلْمَقْصُوْدُ بِذِکْرِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ: جِنْسُ الْخَلْقِ ، وَالْمَعْنٰی: أَنَّ الْخَلْقَ کُلَّہُمْ یَمُوْتُوْنَ وَلَا یَبْقٰٓی إِلَّا الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ۔‘‘ [1] [’’جن وانس کے ذکر کرنے سے مقصود ساری کی ساری مخلوق ہے اور معنیٰ یہ ہے ، کہ تمام مخلوقات مرنے والی ہیں اور [اَلْحَيُّ الْقَیُّوْمُ] کے سوا کوئی باقی رہنے والا نہیں۔‘‘] و: سید الخلق صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ازلی اور ابدی نہ ہونا: اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے سب سے بلند و بالا اور انہیں سب سے زیادہ پیارے اور محبوب ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے ازلی اور دائمی زندگی ہوتی، تو سب سے پہلے اُن کی ہوتی، لیکن ان کے لیے بھی ایسی زندگی نہیں تھی۔ وہ ولادت سے پہلے نہیں تھے اور دنیا میں تشریف لانے کے بعد فوت ہوگئے۔ اسی سلسلے میں کتاب وسنّت کی چار نصوص ذیل میں ملاحظہ فرمائیں: ۱: ارشادِ ربانی: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ}[2]
[1] شرح کتاب التوحید ۱؍ ۱۳۲۔ [2] سورۃ آل عمران/ الآیۃ ۱۴۴۔