کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 117
’’ یَعْنِي ہُوَ الْأَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ بِلَا ابْتِدَائٍ ، بَلْ کَانَ ہُوَ ، وَلَمْ یَکُنْ شَيْئٌ مَوْجُوْدًا۔
وَالْآخِرُ بَعْدَ فَنَائِ کُلِّ شَیْئٍ بِلَا اِنْتِہَائٍ ، تَفْنَی الْأَشْیَائُ وَیَبْقٰی ہُوَ۔‘‘ [1]
[یعنی وہ بلا ابتدا[2] ہر چیز سے پہلے ہیں، بلکہ وہ تو تب سے ہیں، جب کوئی چیز بھی موجود نہیں تھی۔
اور وہ ہر چیز کے فنا ہونے کے بعد بھی ( رہنے والے) ہیں ، ان کا ناپید ہونا نہیں، تمام چیزیں نابود ہو جائیں گی اور وہ ہی باقی رہیں گے۔]
ii: شیخ ابن عاشور رقم طراز ہیں:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ فِيْ قَوْلِہٖ: {ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ} دَلَالَۃَ قَصْرٍ مِّنْ طَرِیْقِ تَعْرِیْفِ جُزْأَيْ الْجُمْلَۃِ۔‘‘ [3]
[’’جان لیجئے، کہ بلاشبہ ارشادِ باری تعالیٰ{ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ}، جملے کے دونوں اجزاء کے (اسمائے) معرفہ ہونے کی بنا پر، حصر پر دلالت کرتا ہے۔‘‘]
یعنی جملے {ہُوَ الْاَوَّلُ} میں {ہُوَ} معرفہ ہے۔ اور جب جملے کے دونوں اجزاء (مبتدا اور خبر) اسمائے معرفہ ہوں، تو جملہ حصر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح ترجمہ یہ ہو گا:
[1] تفسیر البغوي ۴؍۲۹۳۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البحر المحیط ۸؍۲۱۶ ؛ و بدائع التفسیر ۳؍ ۱۲۷ ؛ والعقیدۃ الطحاویۃ و شرحہا ص ۶۶؛ (بتحقیق الشیخ أحمد شاکر) ؛ و تیسیر الکریم الرحمٰن ص ۸۳۷۔ (ط: الرسالۃ)۔
[2] یعنی اللّٰه تعالیٰ کے موجود ہونے کے لیے کوئی وقتِ آغاز نہیں ، کہ وہ اس سے پہلے نہیں تھے۔
[3] تفسیر التحریر والتنویر ۲۷؍۳۶۱۔