کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 115
الْقَیُّوْمُ} ، وَہُوَ الْاِسْمُ الْأَعْظَمُ ، لِأَنَّہٗ مَا مِنْ حَيٍّ إِلَّا وَہُوَ شَاعِرُ مُرِیْدٌ ، فَاْستَلْزَمَ جَمِیْعَ الصِّفَاتِ۔ فَلَوِ اکْتَفٰی فِيْ الصِّفَاتِ بِالتَّلَازُمِ لَاکْتَفٰی بِ [الْحَيِّ]۔ [1] [اَلْحَيُّ] بجائے خود ،تمام صفات کو لازم کرتا ہے، اسی لیے قرآن کریم کی عظیم ترین آیت: {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} ہے ۔ وہ ہی [اسمِ اعظم] ہے، کیونکہ ہر زندہ، شعور اور ارادے والا ہوتا ہے، اسی لیے وہ تمام صفات کو لازم کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی ایسی صفت پر اکتفا کرنا ہوتا، جو دیگر صفات کو لازم کرے، تو صفت [اَلْحَيُّ] سے کیا جاتا۔ ۲: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے: ’’ وَأَنَّہٗ [اَلْحَيُّ] الَّذِيْ لَہٗ جَمِیْعُ مَعَانِيْ الْحَیَاۃِ الْکَامِلَۃِ مِنَ السَّمْعِ ، وَالْبَصَرِ ، وَالْقُدْرَۃِ، وَالْإِرَادَۃِ، وَ غَیْرِہَا ، وَالصِّفَاتِ الذَّاتِیَّۃِ۔‘‘ [2] ’’[اَلْحَيُّ] وہ ذات (بلند و بالا) ہیں، جن میں کامل زندگی کے تمام معانی: دیکھنا، سننا، قدرت، ارادہ وغیرہ اور صفات ذاتیہ[3] ہیں۔‘‘ ۳: شیخ محمد بن صالح عثیمین رقم طراز ہیں: ’’ہٰذَانِ اسْمَانِ مِنْ أَسْمَآئِہٖ تَعَالٰی: وَہُمَا جَامِعَانِ لِکَمَالِ الْأَوْصَافِ وَالْأَفْعَالِ۔
[1] ملاحظہ ہو: مجموع الفتاویٰ ۱۸/۳۱۱۔ نیز ملاحظہ ہو: شرح الطحاویۃ في العقیدۃ السلفیۃ ص ۷۸۔ (المطبوع بتحقیق الشیخ أحمد شاکر)۔ [2] تیسیر الکریم الرحمٰن ۱؍۳۱۳۔ (ط: مرکز الصالح بن صالح الثقافي)۔ [3] یعنی وہ صفات، جو انہیں کسی اور نے نہیں دی۔