کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 114
[الٓمّٓ۔ اللہ تعالیٰ، ان کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہمیشہ سے زندہ اور تمام کائنات کی تدبیر کرنے والے ہیں۔]
۲: {وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ}[1]
[اور چہرے جھک گئے، ہمیشہ زندہ رہنے والے، کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والے (اللہ کریم) کے لیے۔]
۳: {وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوتُ}[2]
[اور آپ ہمیشہ زندہ رہنے والے پر بھروسہ کیجیے، جو کہ فوت نہیں ہوں گے۔]
۴: {ہُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}[3]
[وہ ہی ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں، ان کے علاوہ کوئی معبود نہیں، سو تم عبادت کو ان ہی کے لیے خالص کرکے انہیں پکارو۔]
ج: اسمِ مبارک [اَلْحَيُّ] کی شان و عظمت:
تین علمائے امت کے اقوال:
۱: شیخ الإسلام ابن تیمیہ کی رائے میں اسم مبارک [اَلْحَيُّ] تمام صفات کمال کو لازم کردیتا ہے[4] اور یہی [اسم اعظم] [5] ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
[فَا لْحَيُّ] نَفْسُہٗ مُسْتَلْزِمٌ لِجَمِیْعِ الصِّفَاتِ ، وَہُوَ أَصْلُہَا، وَلِہٰذَا کَانَ أَعْظَمُ آیَۃٍ فِي الْقُرآنِ {اَللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ
[1] سورۃ طٰہ / جزء من الآیۃ ۱۱۱۔
[2] سورۃ الفرقان / جزء من الآیۃ ۵۸۔
[3] سورۃ المؤمن / جزء من الآیۃ ۶۵۔
[4] یعنی یہ اسمِ گرامی دیگر تمام کمالات والی صفات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس طرح اللّٰه کریم کے لیے یہ مبارک نام بولنے سے، ان کا تمام بلند و بالا صفات والے، ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ وَاللّٰه تَعَالیٰ أَعْلَمْ۔
[5] یعنی اللّٰه تعالیٰ کا عظیم ترین نامِ مبارک۔