کتاب: آیت الکرسی کی فضیلت اور تفسیر - صفحہ 103
’’ہم (غزوہ) ذات الرقاع[1] میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی سایہ دار درخت کے پاس پہنچتے، تو اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ (یعنی مخصوص کر) دیتے۔ مشرکوں میں سے ایک شخص آیا، اس نے درخت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لٹکائی ہوئی تلوار کو (پکڑا اور اُسے) میان سے نکالا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’تَخَافُنِيْ؟‘‘ ’’تو مجھ سے ڈرتا ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (جواب میں) کہا: ’’لَا‘‘ ’’نہیں۔‘‘ کہنے لگا: ’’فَمَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّيْ؟‘‘ ’’تو (پھر) تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ۔‘‘[2]
[1] اس غزوہ کی تاریخ کے بارے میںاختلاف ہے۔ امام بخاری کا رجحان یہ ہے ، کہ یہ غزوہ، خیبر کے بعد کا ہے۔ امام ابن قیم اور حافظ ابن حجر کی بھی یہی رائے ہے۔ اس غزوہ میں سواریوں کی شدید قلّت کی بنا پر حضراتِ صحابہ کو بہت زیادہ سفر پیدل طے کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کے قدموں میں سوراخ ہو گئے اور انہوں نے قدموں کو کپڑے کے ٹکڑوں [الرِّقَاعْ] میں لپیٹ لیا۔ اسی سبب سے یہ غزوہ ذات الرقاع کے نام سے مشہور ہوا۔ (ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ ذات الرقاع، رقم الحدیث ۴۱۲۸، ۷؍ ۴۱۷ ؛ و زاد المعاد ۳؍ ۲۵۲ ؛ و فتح الباري ۷؍ ۴۱۷ و ۴۱۸۔ ۴۲۰ ؛ و فقہ السیرۃ للدکتور زید الزید ص ۵۶۵ ؛ و الرحیق المختوم ص ۴۰۴)۔ [2] صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرقاع، رقم الحدیث ۴۱۳۶ باختصار، ۷/۴۲۶۔