کتاب: آسان توحید - صفحہ 62
طاغوت کا انکار ہے۔[یعنی طاغوت کی عبادت چھوڑ دینا اور اس سے اجتناب اور براء ت کا اظہار کرنا]فرمان الٰہی ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾[النحل:۳۶] ’’بیشک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ(وہ انہیں دعوت دے کہ صرف)اﷲ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔‘‘[1] طاغوت سے انکار کا طریقہ: ۱۔ یہ کہ آپ غیراللہ کی عبادت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس سے بغض رکھیں اور نفرت کریں۔[2] ۲۔ یہ کہ اہل طاغوت کاانکار کیا جائے اور ان سے عداوت رکھی جائے۔[3]
[1] جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا﴾[البقرۃ: ۲۵۶]’’جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اﷲپرایمان لایا اس نے مضبوط کڑے کوتھام لیا جس کوٹوٹنا نہیں ہے۔‘‘ جس نے زبان سے شہادتین کا اقرارکیا مگرطاغوت کونہیں چھوڑا تو اس کا یہ اقرارشرعی معنی کے لحاظ سے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہے اور یہ شخص اسلام میں داخل بھی نہیں ہے۔ [2] طاغوت کی عبادت باطل ہونے کا عقیدہ رکھنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ وَ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ﴾[حج:۶۲]’’اس لئے کہ اﷲ ہی حق ہے اور یہ لوگ جواللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ باطل ہیں اللہ تعالیٰ ہی سب سے بلند اور بڑا ہے‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾[الحج:۳۰] ’’بتوں کی ناپاکی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔‘‘طاغوت کی عبادت اور بتوں کی پرستش یہی ہے کہ انہیں طاقت کا مالک مانا جائے اور ان سے مدد مانگی جائے ان کی خوشنودی کے لئے نذر و نیاز دیئے جائیں۔ [3] طاغوت کے انکار کی دلیل:اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَأ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ اَبَداً حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہُ﴾[الممتحنہ:۴]’’تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں کی سیرت بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہیں جنہیں تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ پکارتے ہو ہم تمہارے ان عقائد کاانکار کرتے ہیں اورہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور نفرت ظاہر ہوچکی جب تک کہ تم ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لے آؤ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول بطور حکایت کے بیان کرکے فرمایا ہے:﴿قَالَ اَفَرَأَیْتُمَ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَ اٰبَاؤُکُمُ الْاَ قْدَمُوْنَo فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾[الشعراء::۷۵ تا ۷۸)’’(ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے) کہا کہ مجھے بتاؤ(ان کی حقیقت)جن کی تم عبادت کرتے ہو تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی یہ(تمہارے معبود) میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے۔‘‘