کتاب: آسان توحید - صفحہ 57
۵[1]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی طریقہ سے نفرت اور بغض رکھنا۔اگر اس کے مطابق عمل بھی کرے گاتو کفر کا مرتکب ہوگا۔[2]
[1] [سابقہ صفحہ سے]اس میں بذیل امور شامل ہیں:۱۔ یہ اعتقاد رکھنا کہ لوگوں کے تیا ر کردہ نظام اور قوانین اللہ کی شریعت سے افضل ہیں۔فرمان الٰہی ہے:﴿أَمْ لَہُمْ شُرَکَائٌ شَرَعُوْا لَہُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَن بِہِ اللّٰهُ﴾[الشوریٰ:۲۰]’’کیا ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین ایجاد کیا ہے،جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘ …چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم اور امام مقرر کیا ہے، لہٰذا آپ کے حکم کو بے چون وچراں تسلیم کیا جائے، ارشاد الٰہی ہے:﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً﴾[النساء:۶۵]’’ آپ کے رب کی قسم! یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کرلیں،اور پھر اپنے نفوس میں آپ کے فیصلہ کے خلاف کوئی تنگی بھی نہ پائیں اوراسے صحیح طور پر مان لیں۔‘‘
۲۔یہ اعتقاد رکھنا کہ ’’ دین اسلام کی تطبیق اورنفاذ ممکن نہیں۔اوریہ دین اس دور کے مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی وجہ ہے۔‘‘
۳۔یا یہ اعتقاد رکھنا کہ دین انسان کے اپنے رب سے تعلق کا نام ہے، اور اسے باقی امور زندگی میں کوئی دخل نہیں۔
۴۔یا یہ اعتقاد کہ شرعی حدود جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، اورشادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، اس زمانے کے ساتھ مناسب نہیں ہیں ؛ حالانکہ اسلام قیامت تک آنے والے لوگوں کا دین ہے۔جو کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی عین مصلحت کے مطابق نازل کیا ہے۔اور ایسا ہر گز ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کسی کام کے کرنے کا حکم دیں، اور اس کا ہونا نا ممکن ہو؛ یہ سراسر الزام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾[البقرہ: ۲۸۶]’’ اللہ تعالیٰ کسی جی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں ٹھہراتے،ہر نفس کے لئے وہی ہے جو اس نے کمایا، اور اس پر اسی کا بوجھ ہے جو اس نے کیاہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ﴾[المائدۃ:۴۴]
’’ اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے، پس وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
امام طاؤس(رحمہ اللہ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بغیر فیصلہ کرنے والا کافر ہے۔‘‘
[2] دلیل: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَرِہُوْا مَا أَنزَلَ اللّٰهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ﴾[محمد:۹]’’ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ چیز کو نا پسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال بیکار کردیے۔‘‘
اور فرمایا:﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ﴾[نور:۶۳]’’سو چاہیے کہ وہ لوگ ڈر جائیں جو رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ انہیں کوئی آزمائش پہنچے، یا دردناک عذاب میں مبتلا کردیے جائیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسکتم بِہَا کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ)) ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تم ہر گز کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے جب تک ان کو مضبوطی سے تھام رکھوگے، وہ ہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔‘‘نیز اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا،[جاری ہے]