کتاب: آسان توحید - صفحہ 56
[1]۳۔ جو شخص مشرکوں کو کافر نہ سمجھتاہو یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھتا ہے تو یہ شخص کافر ہے۔[2]
۴۔ اسلام پر ترجیح:اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ کر کسی کا طریق کار زیادہ کامل اوراچھا ہے، اور اس میں کامیابی ہے۔یا یہ کہ غیر کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں۔یا پھرجو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کسی دوسرے طاغوت کے حکم کو ترجیح دیتا ہو؛ تو ایسا انسان کافر ہے۔[3]
[1] [بقیہ حاشیہ]﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہِ﴾[البقرۃ: ۲۵۵]’’کون شخص ہے جو اﷲکی اجازت کے بغیراس کے ہاں شفاعت کرے گا۔‘‘
۲۔سفارش کی اجازت اﷲصرف انہی لوگوں کے لئے دے گاجن سے اﷲراضی ہوگا اور پسند فرمائے گا۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی﴾[الانبیاء: ۲۸]
’’یہ(فرشتے)کسی کی سفارش نہیں کرتے۔علاوہ ان کے جن کے لئے اﷲتعالیٰ پسند فرمائے۔‘‘
جبکہ مشرکوں کے اعمال کوڑا کرکٹ کی مانندضائع ہوجائیں گے ان کے لئے کوئی شفاعت نہ ہوگی۔ ان کی خواہشات کے برعکس کوئی سفارشی ان کو میسر نہ آئے گا، کیونکہ جو شخص توحید پر عمل کیے بغیراپنی شفاعت چاہتا ہے تو اس کا انجام محرومی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟
[2] مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اس شخص کے کافر ہونے میں شک کرے جسے امت محمدیہ نے بالاتفاق کافر قرار دیا ہو جیسے عیسائی اور مشرک وغیرہ۔شرک چند مخصوص چیزوں کانام نہیں بلکہ شرک یہ ہے کہ اﷲ کے لئے جو اعمال و صفات خاص ہیں وہ کسی اور کے لئے ماننا۔(الدرء النضیہ ص:۱۸)۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اس لیے ہم ہر اس شخص کو بھی کافر کہتے ہیں جو اسلام کے علاوہ کسی بھی(دوسرے) مذہب کے ماننے والے کو کافر نہ کہے ؛ یا ان کو کافر کہنے میں تردد کرے؛ یا ان کے کفر میں شک وشبہ کرے؛ یا ان کے مذہب کو درست کہے۔ اگرچہ یہ شخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو، اور اسلام کے علاوہ ہر مذہب کو باطل بھی کہتا ہو؛ تب بھی یہ غیر مذہب والوں کو کافر نہ کہنے والا خود کافر ہے۔اس لیے کہ یہ شخص ایک مسلّمہ کافرکوکافرکہنے کی مخالفت کرکے اسلام کی مخالفت کرتا ہے ؛ اور یہ دین پر کھلا ہوا طعن اور اس کی تکذیب ہے۔‘‘[إکفار الملحدین:۲۲۱]
کفار سے بیزاری، ان کے ساتھ اختلاط سے پرہیز، اور ان کے احکام جاننا ضروری ہیں، تاکہ کفر کی حقیقت کا پتہ چل سکے، اور مسلمان کے حقوق ضائع نہ ہوں ؛ جیسے حقوق وراثت،حقوق ولایت، کفالت وتربیت وغیرہ۔کیونکہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنی ہے، کافروں کیساتھ نہیں۔ایسے ہی وہ شخص بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے جو کسی کافر اور مرتد کو تاویل کرکے مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جو شخص یمامہ والوں کے حق میں تاویل(کرکے ان کومسلمان ثابت)کرے وہ کافر ہے، اور جو شخص کسی قطعی اور یقینی کافر کو کافر نہ کہے، وہ بھی کافر ہے۔‘‘[منہاج السنۃ ۲؍۲۳۳] [حاشیہ جاری ہے]
[3] اگلے صفحہ پہ