کتاب: آسان توحید - صفحہ 55
[1]……………………………………………………
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] [بقیہ حاشیہ]﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِنْ ظَہِیْرٍ o وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ﴾[سبا:۲۲۔۲۳]’’فرما دیجئے کہ اﷲ کے سوا جن کا تمہیں گمان ہے سب کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کااختیار ہے اور نہ ہی اس میں ان کا کوئی حصہ ہے۔نہ ان میں سے کوئی اﷲکا مددگار ہے۔ کسی کی شفاعت اس کے پاس کچھ فائدہ نہیں دے گی۔سوائے اس کے جسے وہ اجازت دے۔‘‘
مشرکین قدیم ہوں یا جدید؛ شفاعت قہری کے عقیدہ سے وابستہ ہوکر شرک اکبر میں مبتلاہوچکے ہیں، حالانکہ اﷲتعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پرقیامت کے دن ایسی کسی بھی قسم کی شفاعت کی نفی کی ہے۔ جس کا یہ مشر کین عقید ہ اور گمان رکھتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے:﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾[البقرۃ: ۲۵۴]’’اے ایمان والو!جومال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ(اﷲکی راہ میں)کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ کوئی تجارت کام آئے گی نہ دوستی اورنہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘نیزفرمان الٰہی ہے:﴿وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْآاِلیٰ رَبِّہَمْ لَیْسَ لَہُمْ مّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّوَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّہُمْ یتَّقُوْنَ﴾[الا نعام:۵۱]
’’اور تم قرآن کے ذریعہ سے ان لوگوں کو ڈراؤجو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے پردردگار کی طرف اٹھا ئے جا ئیں گے(اور) اس کے سوا ان کاکو ئی کار سازاور سفارش کرنے والا نہیں ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں ‘‘۔
ان مذکورہ بالاآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے وہ شفاعت قہری ہے۔یعنی مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہمارے اولیاء وصالحین کااﷲتعالیٰ کے ہاں ایسا مقام ہے کہ وہ جس کو چاہیں اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں۔جیسا کہ ہمارے دور کے لوگ بھی کہتے ہیں: ’’خدا کا پکڑا چھڑائے محمد …محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا۔‘‘
اور کہتے ہیں: ان کی جاہ سے طلب کی جانے والی سفارش قابل قبول ہوگی۔مگر ارشادِ با ری تعالیٰ ہے:﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہِ﴾[البقرۃ: ۲۵۵]’’(اﷲ)کی اجازت کے بغیر کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے۔‘‘
ایک اورمقام پر فرمایا:﴿وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ﴾[الانبیاء: ۲۸]
’’یہ(فرشتے)کسی کی سفارش نہیں کرتے۔علاوہ ان کے جن سے اﷲتعالیٰخوش ہو۔وہ تو خود ہیبتِ الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں۔‘‘ فرمان الٰہی ہے:﴿قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا لَہٗ مُلْلکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضِ ثُمَّ اِ لَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾[الزمر: ۴۴]’’فرما دیجیے کہ: سب شفاعت اﷲ ہی کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لئے ہے پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے‘‘۔
ارشادِ الٰہی ہے:﴿وَکَمْ مِّنْ مَلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰی﴾[النجم: ۲۶]’’بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی،مگر اﷲتعالیٰ کی اجازت کے بعد اور اس کے لئے صرف جس کواﷲتعالیٰچاہے،اور پسند فرمائے۔‘‘
شفاعت کے باب میں دوباتوں کا خیال کرنا بہت ضروری ہے:
۱۔سفارش کرنے والا اﷲتعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارش کرسکے گا۔جیسا کہفرمان الٰہی ہے:[جاری ہے]