کتاب: آسان توحید - صفحہ 43
﴿وَاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْا یَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا﴾[الجن:۱۹]
’’اور جب اللہ کا بندہ اللہ [1]کو پکارنے کے لیے کھڑا ہواتو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ہوگئے۔‘‘
پس آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، آپ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
آپ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں،آپ کی بندگی نہیں کی جاسکتی۔
اس کی شرائط و تقاضے:
اس کی چار شرائط ہیں:
۱۔ جو بات آپ نے بتائی ہے اس کی تصدیق کرنا۔
۲۔ حکم میں آپ کی تعمیل کرنا۔
۳۔ آپ کے منع کردہ اُمور سے مکمل اجتناب کرنا۔
۴۔ آپ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ کی بندگی کرنا۔
[1] اللہ کے بندہ[عبداللہ]سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ لیکن امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔ یعنی جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑے آتے ہیں اور کافر بھی۔ اگرچہ دونوں کے آنے اور ہجوم کرنے کا مقصد الگ الگ اور ایک دوسرے کے برعکس ہوتا ہے۔ مسلمان ہدایت کے طالب ہیں اس لیے وہ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑتے ہیں اور کافر یہ چاہتے ہیں کہ وہاں شور شرابا کرکے قرآن کی آواز لوگوں کے کانوں میں نہ پڑنے دیں یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظریں جما کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھور گھار کراتنا مرعوب کر دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سنانا بند کردیں یا پھر اس لیے سننے آجاتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کیا جاسکے یا مذاق اڑایا جاسکے۔