کتاب: آسان توحید - صفحہ 40
۶۔چھٹی شرط:…تابعداری:اس کا معنی یہ ہے کہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے اور اس کی شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے،اوراس شریعت کے برحق ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ﴾(الزمر:۵۴) ’’اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے مطیع ہو جاؤ۔‘‘[1] ۷۔ساتویں شرط:… قبول جو انکار کے منافی ہو:یعنی توحید اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے ؛اور جن معانی پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے انہیں بھی قبول کرے۔ اور عبادات کو صرف اللہ کے لیے خاص کرے اورغیراللہ کی عبادت ترک کردے۔[2] فرمان الٰہی ہے:
[1] علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جلدی رجوع کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:﴿وَأَنِیْبُوْا إِلَی رَبِّکُمْ﴾سے مراد اپنے دلوں کے ساتھ رجوع ہے۔ اور﴿وَأَسْلِمُوْا لَہُ﴾: سے مراد اپنے باقی اعضاء سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہے۔کیونکہ جب انابت کے ساتھ اسلام کا ذکر بھی ہو تو اس سے مراد دل و اعضاء سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔یعنی ظاہری اور باطنی طور پر انسان کامل اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے احکام ِ شریعت کی پیروی کرے۔ نیک اعمال میں جلدی کرنا انابت إلی اللہ کا حصہ اور اس کا مظہر ہے۔ اور یہی انسان کے بہترین اور اچھے مسلمان ہونے کی نشانی ہے، جیسا کہ فرمایا:﴿وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ وّاتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً﴾’’اور اُس شخص سے کس کا دین اچھا ہو سکتا ہے جس نے حکمِ الٰہی کو قبول کیا اور وہ نیکوکار بھی ہے اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے جو یکسو مسلمان تھے۔‘‘ [2] یعنی جب مشرکین کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے اقرار اور باقی معبودوں کے انکار کی دعوت دی جاتی تو وہ کلمہ توحید اور اس کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں غرور اور تکبر سے کام لیتے، اور اس کی بات کو ماننے سے انکار کر دیتے۔ صرف یہی نہیں،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الٹے سیدھے الزام لگاتے اور تکلیف دیتے۔ مشرکین کا یہ طرز عمل ان کی سب سے بڑی بد بختی تھی جس کی وجہ سے خود انہیں بھی حق بات قبول کرنے کی توفیق نہ ہوتی اورنہ ہی وہ اپنے ماتحت اور زیر اثر لوگوں کواسلام قبول کرنے دیتے۔اللہ تعالیٰ نے ان تمام تر الزامات کا رد کرتے ہوئے فرمایا:﴿بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾’’بلکہ وہ حق لے کر آئے ہیں اور پہلے انبیاء کی تصدیق کی ہے۔‘‘ اور نبی صفاتِ حمیدہ کے حامل درست منہج کے داعی سچے مخبِر اور واجب الاتباع والایمان ہوتے ہیں۔ان کی بات نہ ماننا بڑی بد بختی اور شقاوت ہی شقاوت ہے ؛ فرمان ِ الٰہی ہے:﴿قُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا﴾(البقرہ: ۱۳۶) ’’ تم کہو: ہم االلہ تعالیٰ پر ایمان لائے، اور اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی ہے۔‘‘(یعنی قرآن) اور جو اس کے باوجود ایمان نہ لائے اور آپ کے لائے ہوئے منہج اور شریعت کو قبول نہ کرے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کوئی نقصان نہیں دے سکتا مگر اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرکے اپنے آپ کو انتہائی سخت بدبختی اور شقاوت سے دو چارکررہا ہے۔ جیسا کہ فرمان ِ الٰہی ہے:﴿فَإِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ﴾[الانعام:۳۳]’’ سو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے، لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘