کتاب: آسان توحید - صفحہ 39
[1]۵۔پانچویں شرط: محبت جو بغض کے منافی ہو:… اس کا معنی یہ ہے کہ جب آپ اس کلمہ کا اقرار کریں تو دل سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؛اس کلمہ اوراس کے معانی و مدلول سے محبت کرتے ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ﴾(البقرۃ:۱۶۵)
’’کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے علاوہ معبود بناتے ہیں ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اﷲ سے کرنی چاہیے اور ایمان والے اﷲ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ ‘‘[2]
[1] [بقیہ حاشیہ]ایک اور مقام پر فرمایا ہے:((مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ صَادِقًا مِنْ قَلْبِہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔))(مسنداحمد) ’’جس نے سچے دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘
مگر جو شخص زبان سے اقرار کرتا ہے مگر دل سے کلمہ کے مطالب سے انکاری ہے تو فقط زبانی اقرار کا کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا ہے ؛ وہ کہتے ہیں:((نشھد انک لرسول اﷲ)) ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ﴾(المنافقون:۱) ’’اﷲ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اﷲ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔‘‘اسی طرح ایک اورآیت میں بھی اﷲ نے ایسے لوگوں کی تکذیب کی ہے ؛فرمایا:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾(البقرہ:۸)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔‘‘
[2] اس کلمہ کی[اور اس کی روشنی میں توحید الٰہی کی]محبت دل میں اتنی ہو جوہر نفرت کو فنا کر دے اور انسان توحید ربانی کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔منافقین کی طرح نہ ہو جو زبان سے تو اس کا اقرار کرتے ہیں مگر دل میں یقین نہیں رکھتے۔ مشرکین مکہ کی طرح بھی نہ بنے کہ کلمہ کا معنی و مفہوم تو سمجھتے تھے مگر اس کلمہ کو قبول نہیں کرتے تھے۔ نیز اس کلمہ کے تقاضوں کی روشنی میں ایسی اطاعت کرے جو کہ صحیح اسلام کے لئے لازم و ضروری ہے۔ جوشخص ان باتوں پر یقین کرے اور ان پر عمل کرلے تو وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معانی و مطالب کو سمجھنے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرے گا اور پھر وہ دین پر عمل علی وجہ البصیرت کرے گا دین پر ثابت قدم رہے گا اور کبھی سیدھی راہ سے بھٹکے گا نہیں۔(ان شاء اﷲ)(الدرء السینۃ کتاب التوحید 2/255)۔
اس سے مراد یہ بھی ہے کہ اس کلمہ کے معنی اور مطالب کی محبت دل میں پیوستہ ہو۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر ایک چیز پر غالب اور ہر ایک محبت سے زیادہ ہو۔ اوران لوگوں سے بھی محبت ہو جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پر کاربند اور اس کے تقاضوں کو پورے کرنے والے ہوں۔ غرض کہ محبت اور نفرت، دوستی اور دشمنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے معیار پر قائم کی جائے۔