کتاب: آسان توحید - صفحہ 38
﴿الٓمّٓ o اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ﴾[العنکبوت: ۱ تا ۳][1]
’’الم۔ کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔حالانکہ بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کی بھی آزمائش کی جو ان سے پہلے تھے، سو اللہ تعالیٰ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنھوں نے سچ کہا اور ان لوگوں کو بھی ہر صورت جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘[2]
[1] [بقیہ حاشیہ]اس خوش نصیب کو حاصل ہوگی جس نے دل کے اخلاص کیسا تھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہاہوگا۔‘‘(بخاری)
یعنی ایسا ایمان و عمل جس میں شرک کی آمیزش بلکہ شائبہ تک نہ ہو۔اور کلمہ کے تقاضوں کے مطابق عمل ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت کا اقرار کرتا ہے؛ اسی طرح غیر اللہ سے براء ت کا اظہار بھی کرے۔ اور یہی حقیقی معنی اور روح ہے’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ کے اقرار کی ؛ اسی وجہ سے اس کلمہ کو کلمۂ اخلاص بھی کہتے ہیں۔ شرعی معنی کی رو سے ہر عبادت کے کام کو ہر قسم کے شرک اور ریاکاری سے بچاتے ہوئے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا؛فرما ن الٰہی ہے:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ o اَ لَا لِلّٰہِ الدِّ یْنُ الْخَالِصُ﴾(الزمر:۲،۳)
’’(اے پیغمبر!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تواللہ تعالیٰ کی عبادت کرو(یعنی) اس کی عبادت کو(شرک سے) خالص کر کے۔دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے(زیبا ہے)۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ یعنی تم اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو جو اکیلا ہے، اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دو۔انہیں آگاہ کردو کہ عبادت کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے ؛ نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی ہمسر؛ اس کے ہاں صرف اخلاص کی بنیاد پر کی جانے والی عبادت ہی قبول ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر:۴/۴۹)
یہی تعلیم ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں ملتی ہے ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ میں تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں اور جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس میں وہ میرے ساتھ کسی اور کو شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘(مسلم)
[2] مطلب کو سمجھ کر یقین کے ساتھ تابعداری کرنے کیساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان امور میں انسان سچائی سے کام لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ صَادِقًا مِنْ قَلْبِہِ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔)) ’’جو شخص نے اﷲ کی وحدانیت محمد کی رسالت و عبدیت کااقرار دل کی سچائی سے کرے گا تواللہ تعالیٰ نے اس کو جہنم پر حرام کر دیا ہے۔‘‘(متفق علیہ)[حاشیہ جاری ہے]