کتاب: آسان توحید - صفحہ 37
[1]کے لئے خالص ہو اور کسی بھی قسم کی عبادت کوغیر اﷲ کے لئے نہ بجالائے۔[2] جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ﴾[البینہ:۵] ’’انہیں صرف یہی حکم دیاگیا ہے کہ اﷲ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے یکسو ہوکر۔‘‘ ۴۔چوتھی شرط:صدق جو کذب کے منافی ہو:…یعنی کلمہ توحیدکے اقرارمیں انسان سچا ہو، اس کی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق میں مطابقت ہونی چاہیے۔ فرمان الٰہی ہے:
[1] [گزشتہ حاشیہ]د:… مہر جباریت:(دل پہ مہر): یہ درجہ ربط قلب کے مقابلہ میں آتا ہے۔ جب آدمی حق کے مقابلہ میں جھگڑا کرتا ہے اورتمام عقلی ونقلی دلائل سے راہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو نہیں مانتا ؛ اور ضد وعناد پر ڈٹا رہتا ہے،تواس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے؛ پھر کفر ونفاق دل سے باہر نہیں نکل سکتا، اور حق بات دل میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اس انسان سے ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان تمام امورکوایک آیت میں بیان کیا ہے ؛ فرمایا:﴿وَلَقَدْ جَائَ کُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَائَ کُمْ بِہِ حَتَّی إِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْ بَعْدِہِ رَسُوْلًا کَذَلِکَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ o الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ آیَاتِ اللّٰهِ بِغَیْْرِ سُلْطَانٍ أَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللّٰهِ وَعِندَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا کَذَلِکَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلَی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ﴾[غافر: ۳۴- ۳۵]’’ اور اس سے پہلے یوسف علیہ السلام تمہارے پاس کھلے دلائل لے کر آئے، مگر تم پھر بھی ان کی لائی ہوئی دلیل میں شک وشبہ ہی کرتے رہے؛ یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو کہنے لگے: ان کے بعد تو اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہیں بھیجے گا ؛ ایسے ہی اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھ جانے والا اور شک و شبہ کرنے والا ہو۔ وہ لوگ جو بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی بیزاری کی چیز ہے ؛ اللہ تعالیٰ ایسے ہی ہر ایک مغرور سرکش کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔‘‘ یعنی ایسا یقین جس کیساتھ انسان کے دل میں کوئی بے چینی، اضطراب، قلق، اور وہم یا بد گمانی دین اسلام یا شریعت محمدیہ کے متعلق باقی نہ رہے؛ اس معاملہ میں زیادہ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ موجودہ دور میں ہر طرف سے دین اسلام پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، ان حالات میں ایک عام مسلم نوجوان شکوک وشبہات کا شکارہوجاتاہے۔ اور یہی شک ہر فتنہ کی اصل بنیاد اور کفر کے درجہ تک پہنچا دینے والی چیز ہے۔ [2] اس طرح اخلاص کا معنی یہ بھی ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کااقرار کسی اور کی خاطر کسی اور کی خوشنودی کے لئے نہ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((فَاِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ۔))’’اللہ تعالیٰ نے جہنم پر حرام کر دیا ہے اس شخص کو جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ صرف اﷲ کی رضا مندی کے لئے کہتا ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا:((أسعد الناس بشفاعتی یوم القیامۃ من قال لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ خالصا مخلصا من قلبہ))۔’’روزِقیامت میری شفاعت[حاشیہ جاری ہے]