کتاب: آسان توحید - صفحہ 35
جیسا کہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے:﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہَ﴾[محمد: ۱۹] ’’جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘[1] ۲۔دوسری شرط یقین جوکہ شک کے منافی ہو:…اس کا معنی یہ ہے کہ: یہ کلمہ کہنے والے کو پختہ یقین ہو کہ معبود برحق صرف اورصرف ایک اللہ ہی ہے۔[2]اللہ تعالیٰ کافرمان
[1] وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ﴾(ابراہیم:۵۲) ’’یہ لوگوں تک پہنچانا ہے اور تاکہ اس کے ذریعہ سے(یہ انبیاء)لوگوں کو متنبہ کریں اور لوگ یہ جان لیں کہ وہ اکیلا معبودبرحق ہے اور تاکہ عقل مند نصیحت حاصل کریں۔‘‘ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے﴿وَلِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾فرمایا ہے جس کا معنی ہے تاکہ وہ اﷲ کی وحدانیت کا علم حاصل کریں، یہ نہیں فرمایا کہ﴿وَلِیَقُولُوْا اَنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾وہ کہیں کہ وہ اﷲ ہی اکیلا معبود ہے، یعنی صرف زبانی کہناکافی نہیں ؛ بلکہ اس کا جاننا اورعلم رکھناضروری ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا:﴿اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾(الزخرف: ۸۶) ’’جس نے حق کی گواہی دی اور وہ اس کا علم بھی رکھتا ہو۔‘‘ علامہ ابن سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’علم میں دل کا اقرار ضروری ہے۔یعنی اس سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے اسے کے معانی، مطالب جانتا ہو، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی کرتا ہو۔ اور یہ علم جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یعنی علم توحید؛ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ کوئی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں۔‘‘ جب یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ ہر قسم کی عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے، تووہ عبادت کا کوئی کام کسی دوسرے کیلئے بجا نہ لائے۔ ارشاد ربانی ہے:﴿إِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾(الزخرف: ۸۶) ’’ مگر جس نے حق بات کااقرار کیا،اور اسے علم بھی ہو۔‘‘(شیخ بن سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جس نے زبان سے گواہی دی؛ دل سے اقرار کیا ؛اور اس کے معنی ومفہوم کا علم حاصل کیا ؛ وہ شفاعت کا مستحق ہوگا۔‘‘یعنی جس بات کازبان سے اقرار کررہے ہیں اس کے بارے میں علم بھی ہو۔ علماء نے اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیات سے استدلال کیاہے کہ انسان پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا واجب ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا علم حاصل کرنا بھی فرائض میں سے ہے اور اس کلمہ کے معنی سے لاعلمی سب سے بڑی جہالت ہے۔ [2] یعنی توحید اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنی ومطلب کو سمجھنے کے بعد اس پر یقین رکھنا اس میں کسی قسم کا شک نہ کرنا ا س بات پر دل سے یقین کرنا کہ اﷲ ہی تمام قسم کی عبادات کا اکیلا مستحق ہے اس میں ذرا سا بھی شک یا ترد د نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی یہی تعریف کی ہے اور انہیں اپنے دعویٰ ایمان میں سچا قرار دیا ہے۔اس طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں محمد اﷲ کا رسول ہوں اور پھر اس گواہی میں شک نہیں کیا تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے ایمان کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ مومن کا ایمان ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہو۔ کیونکہ شک کرنا منافقین کی صفت ہے نہ کہ مومنین کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:[حاشیہ جاری ہے]