کتاب: آسان توحید - صفحہ 28
بات کی گواہی دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید بجالائیں۔‘‘(متفق علیہ)
۳۔ توحید اورقبولیت اعمال:
توحید کے بغیر عبادات قبول نہیں ہوتیں۔ عبادات کے صحیح ہونے کے لیے توحید اہم ترین شرط ہے۔عبادت کو اس وقت تک عبادت نہیں کہا جاسکتا جب تک اس میں توحید نہ ہو۔جیسے نماز کو اس وقت تک نماز نہیں کہا جاسکتا جب تک اسے پاکیزگی کے ساتھ ادا نہ کیا جائے۔ جب اس میں شرک داخل ہوجاتا ہے تو عبادت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔جیسا کہ اگر طہارت کی حالت میں کوئی حدث پیش آجائے تو طہارت باقی نہیں رہتی۔ توحید کے بغیر عبادت شرک بن جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عمل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔اور اس عمل کے کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار پاتا ہے۔
۴۔ توحید دنیا و آخرت میں امن و ہدایت کا سبب:
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ﴾[الأنعام:۸۲]
’’جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں۔‘‘
یہاں پر ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا ہے۔[1]
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
[1] بخاری ۲/۴۸۴؛عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ظلم کا عام مطلب(کوتاہی، غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ)کوسمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا:﴿اِنَّ الشِرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾(لقمان: ۱۳) یقینا شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘]