کتاب: آسان توحید - صفحہ 151
……………………………………………………[1] …………………………………………………… …………………………………………………… ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطٰنِ۔)) ’’نفع بخش چیز کی حرص کر اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ اور عاجز نہ بن اور کسی وقت اگر مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو یہ نہ کہا کرو ’’اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوتا‘‘ بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا اور جو اُس نے چاہا وہی ہوا کیونکہ ’’اگروگر‘‘ شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔‘‘اس سارے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ: ۱: اگر اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے قضاء وقدر پر اعتراض کرتے ہوئے کیا جائے گا تو اس کا قائل گناہ گار ہوگا۔ مثلاً: اگر فلاں شخص سفر کرنے سے باز رہتا تو اسے موت کا حادثہ پیش نہ آتا، وغیرہ۔ ۲:اگر اس کا استعمال کسی برے فعل کی تمنا کے لیے کیا جائے گا تو بھی اس کا قائل گناہ گار ہوگا۔ مثلاً: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اس سے لہو ولعب اور موسیقی کے آلات خریدتا۔ ۳:اگر اس کا استعمال اچھے کام کی تمنا کے لیے ہو تو اس کا قائل اجر پائے گا۔ مثلاً: اگر میرے پاس مال موجود ہوتا تو میں مسجد تعمیر کرواتا۔ ۴: اگر اس کا استعمال مذکورہ بالا معانی میں سے کسی ایک کے لیے بھی نہ ہو، تو پھر اس کے قائل کو نہ تو اجر وثواب ملے گا اور نہ ہی وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے گا۔ مثلاً: قائل کا یہ قول کہ مسجد کو یہ راستہ جاتا ہے، اگر آپ ادھر سے جائیں گے تو وہ آپ کو دور پڑے گا۔