کتاب: آسان توحید - صفحہ 150
اس کی دلیل[منافقین سے نقل کردہ]اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا﴾(آل عمران:۱۶۸)
’’ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔‘‘
۲۔تقدیر پر اعتراض:
اس کی دلیل[منافقین سے نقل کردہ]اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا﴾ (آل عمران:۱۵۴)
’’وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کیے جاتے۔‘‘
۳ـ شرو برائي کي تمنا:
…اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان مبارک ہے جو آپ نے چار آدمیوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛ ان میں سے ایک نے کہا تھا: ’’ اوراگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا۔‘‘
یعنی اس نے شر اور فسادکی تمنا کی تھی۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ یہ انسان بھی اپنی نیت پر ہے ؛ اور ان دونوں کاگناہ برابر ہے۔ ‘‘[1]
[رواہ أحمد و الترمذی]
[1] اس باب میں انسان کو مصائب و مشکلات کے وقت صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو تقدیر کی گرفت سے آزاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مذمت کی گئی ہے۔ مصائب و مشکلات کے وقت جزع فزع کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے؛ اور اس پر سخت ترین وعید سنائی گئی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ انجام دے اس کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے اور سخت ترین حالات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ ایمان کے چھ اُصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان تقدیر الٰہی پر کامل ایمان ہو۔صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَ لَا تَعْجَزَنَّ وَ اِنْ اَصَابَکَ شَیْیئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا وَ کََذا لَکَانَ کَذَا وَ کَذَا وَ لَکُنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰہُ وَ مَا شَآئَ فَعَلَ[حاشیہ جاری ہے]