کتاب: آسان توحید - صفحہ 148
سے مدد مانگتا ہوں۔‘‘[1] ب:… یہ کہ جملہ امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردے۔یعنی یوں کہے: ’’جوصرف ایک اللہ چاہے۔ میں صرف ایک اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتا ہوں۔ اور اس طرح باقی کلام بھی یہی روش اختیار کرے۔ یہی افضل اور بہتر ہے۔ ‘‘ لفظ ’’اور ‘‘ اور’’ پھر‘‘ میں فرق: الف۔ جب لفظ ’’اور‘‘سے عطف کیا جائے تو ملانے اور برابری کے لیے آتا ہے۔ ب۔ جب لفظ’’پھر‘‘ سے عطف ہوتو اس کی تقاضا اتباع کا ہوتا ہے۔
[1] جو اللہ چاہے اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ چاہیں کے الفاظ زبان سے نکالنا شرک ہے۔ زمانہ نبوی کے یہودی اور عیسائی بھی ان الفاظ کو شرک قرار دیتے تھے۔سیدہ قتیلہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ: ((اَنَّ یَہُوْدِیًّا اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّکُمْ تُشْرِکُوْنَ تَقُوْلُوْنَ مَاشَآئَ اللّٰہُ وَ شِئْتَ وَ تَقُوْلُوْنَ وَالْکَعْبَۃُ فَاَمَرَہُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَرَادُوْا اَنْ یَّحْلِفُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ وَ اَنْ یَّقُوْلُوْا مَا شَآئَ اللّٰہُ ثُمَّ شِئْتَ۔))(رواہ النسائی و صححہ) ’’ ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا: کہ تم لوگ بایں طور مرتکب شرک ہوتے ہو کہ کہتے ہو، جواللہ تعالیٰ چاہے اور تم چاہو، نیز کہتے ہو کعبہ کی قسم! پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانا چاہیں تو(کعبہ کی قسم نہ کہیں بلکہ) ربِّ کعبہ کی قسم کہیں اور یہ کہیں کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تو چاہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ: ’’ حق بات کہنے والا کوئی بھی ہو اُسے تسلیم کر لینا چاہیے۔ کعبہ کی قسم نہ اُٹھانی چاہیے۔‘‘