کتاب: آسان توحید - صفحہ 134
﴿وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ﴾(الواقعۃ)
’’ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو۔‘‘
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ وہ منازل کے متعلق یوں کہا کرتے تھے: ’’ فلاں اور فلاں منزل کی وجہ سے ہم پربارش کی گئی۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ہَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟۔ قَالُوْا: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنٌ بِیْ وَ کَافِرٌ؛ فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ رَحْمَتِہٖ؛ فَذٰلِکَ مُؤمِنٌ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوَاکِبِ۔ وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا؛ فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ۔))
’’کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہوگئے اور بہت سے کافر۔ سو جس نے کہا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اسکی رحمت سے ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا۔ اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔‘‘ [1]
[1] یہ حدیث متفق علیہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کے متعلق جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ انواء کی وجہ سے اور ان کے اثر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص کافر ہے کیونکہ وہ شرک فی الربوبیت کا مرتکب ہوا ہے؛ اور ہر مشرک کافر ہوتا ہے۔ اور جو شخص انواء وغیرہ کی تاثیر کا معتقد نہیں بلکہ اس نے رسماً یہ جملہ کہہ دیا ہے تو یہ شرکِ اصغر ہے۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی ستارے میں کسی قسم کا کوئی بھی سبب بارش برسنے کا نہیں رکھا۔ یہ تو اس کا خاص فضل اور احسان ہے کہ جب چاہتا ہے بارش برساتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے روک لیتا ہے۔اس باب میں بارش کو ستاروں کی مختلف منزلوں کی طرف منسوب[حاشیہ جاری ہے]