کتاب: آسان توحید - صفحہ 132
۲۔ ستاروں کی حرکت سے دنیاوی مصلحتوں پر استدلال کرنا۔[1] اس کی دو اقسام ہیں: أ:… مختلف جہات کی معرفت پر استدلال کرنا۔ایسا کرنا جائز ہے۔ ب:…موسم پر استدلال کرنا۔ صحیح یہ ہے کہ ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے۔ ستاروں کو پیدا کرنے میں حکمت: اس میں تین حکمتیں ہیں: ۱۔ آسمانوں کی زینت۔ ۲۔ شیاطین کی پٹائی۔ ۳۔ راستہ کی رہنمائی۔
[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں: قتادۃ رحمہ اللہ نے فرمایا:((خَلَقَ اللّٰہُ ھٰذِہِ النُّجُوْمَ لِثَلَاثٍ زِیْنَۃً لِّلسَّمَآئِ وَرُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ عَلَامَاتٍ یُّہْتَدٰی بِہَا۔ فَمَنْ تَأَوَّلَ فِیْہَا غَیْرَ ذٰلِکَ أَخْطَأَ وَ أَضَاعَ نَصِیْبَہٗ وَ کَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَہٗ بِہٖ))…’’ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لئے پیدا فرمایا ہے۔(۱)۔ آسمان کی زینت کے لئے۔(۲)۔ شیاطین کو مارنے کے لئے۔(۳)۔ اور بحروبر میں راستے معلوم کرنے کے لئے۔ جو شخص اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیتا ہے وہ خطاکار ہے۔ اس نے اپنا حصہ شرعی ضائع کردیا اور خود کو اس تکلف میں ڈال دیا، جس کا کوئی علم نہیں۔‘‘ اور بعض جاہل جواللہ تعالیٰ کے اوامر کو نہیں جانتے انہوں نے ان ستاروں کے متعلق کاہنوں کی سی نئی نئی باتیں بنالی ہیں جیسے یہ کہ جو شخص ان ان ستاروں کی گردش میں شادی کرے گا اس کا سفر یوں ختم ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’آسمانی سیاروں کی رفتار سے زمین کے حادثات و واقعات کی کھوج لگانے کو تنجیم کہتے ہیں۔‘‘علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ علم نجوم جس کی کتاب و سنت میں ممانعت کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ نجومیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ آنے والے فلاں دن یا فلاں مہینے میں یہ حادثہ رُونما ہو گا۔ یا اس قسم کی ہوا چلے گی، یا فلاں وقت بارش ہو گی یا فلاں چیز مہنگی ہو جائے گی، فلاں سستی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی پیشین گوئی سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فلاں ستارہ جب فلاں برج میں داخل ہوتا ہے یا فلاں فلاں ستارے جب جمع یا الگ ہو جاتے ہیں تو اِن کی وجہ سے زمین پر اس قسم کے انقلابات و تغیرات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نجومیوں کا یہ دعویٰ حقیقت میں علم غیب کا دعویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔‘‘ سوال:… نجومیوں کی بعض باتیں درست ثابت ہوتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب:… نجومیوں کی بعض باتیں بھی کاہنوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک صحیح بات کے ساتھ سو جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی درست بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ بربنائے علم درست ہے بلکہ وہ اتفاقاً درست ثابت ہو جاتی ہے اس میں نجومی کا کمال نہیں ہے۔ پس جو شخص ان کو سچا سمجھتا ہے وہ آزمائش اور فتنے میں مبتلا ہو جاتاہے۔