کتاب: آسان توحید - صفحہ 129
یہ سب سے بڑی نحوست اور بدشگونی ہے۔
دوم: …یہ کہ وہ اس کام کو تو کر گزرے مگر اس میں رنجیدہ وپریشان اور کبیدہ خاطر رہے، اور یہ خوف محسوس کرتا رہے کہ کہیں یہ نحوست اس پر اثر انداز نہ ہوجائے۔ یہ بھی بدشگونی اور نحوست ہے،مگر پہلے سے کم درجہ کی ہے۔
اس کی ہر دو صورتیں توحید کی ناقض اور انسان کے لیے نقصان دہ ہیں۔
جس کے دل پر بد شگونی اثر کر جائے اس کا علاج:
اس کو چاہیے کہ یہ دعا پڑھے:
((اللّٰهم لا یأتي بالحسنات إلا أنت و لا یدفع السیئات إلا أنت۔ لا حول و لا قوۃ إلا باللّٰه۔))
’’اے اللہ! تیرے علاوہ کوئی بھلائی لانے والا نہیں اور تیرے علاوہ کوئی برائی کو ختم کرنے والا نہیں، اور نہ ہی نیکی کی کوئی قوت ہے تیری توفیق کے بغیر۔‘‘
اور ایسے ہی یہ دعا بھی پڑھنی چاہیے:
((اَللّٰہُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ وَ لَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ))
’’اے اللہ،تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے پرند کے سوا کوئی پرند نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ [1]
[1] مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس شخص کو فالِ بد اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی کہ اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا کفارہ یہ ہے[کہ انسان یہ مذکورہ بالادعا پڑھے]۔
کسی چیز کو دیکھ کر یا سن کر اس کو منحوس سمجھتے ہوئے اپنے کام یا سفر سے رُک جانا شرک ہے۔ لہٰذا جو شخص ایسا خلافِ شریعت عمل کرے گا وہ مشرک ہو گا۔ اور اس لحاظ سے کہ ایسے شخص نے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد نہیں کیا بلکہ غیر اللہ پر اعتماد کر لیا ہے، اس لئے اس کے اس فعل میں شیطان کا عمل دخل اور اس کا حصہ پایا جائے گا۔مسند احمد میں سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:((إِنَّمَا الطِّیَرَۃُ مَا اَمْضَاکَ اَوْ رَدَّکَ))
’’ فالِ بد یہ ہے کہ وہ تجھے کسی کام میں لگا دے یاپھر کسی کام سے روک دے۔‘‘
پس ایسی صورت میں بطورکفارہ تجدید ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔