کتاب: آسان توحید - صفحہ 128
’’چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کو منحوس سمجھنا اور صفر کو منحوس سمجھنا یہ سب لغو خیالات ہیں۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلطِّیْرَۃُ مِنَ الشِّرْکِ۔))[رواہ أبو داؤد و الترمذي]
’’ بدشگونی لینا شرک کا کام ہے۔‘‘[1]
بد شگونی لینے والے کے احوال:
یہ دو احوال سے خالی نہیں ہوتا:
اوّل:… یہ کہ اس بدشگونی کو سنجیدگی سے لے، اور کوئی بھی کام کرنے سے باز آجائے تو
[1] سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لِیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطیِّرَلَہٗ؛ أَوتَکَہَّنَ أَوْ تُکُہِّنَ لَہٗ؛ أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَلَہٗ۔وَمَنْ أَتٰی کَاہِنًا فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَآ أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم))(رواہ البزار سندہ جید) ’’جو شخص خود فال نکالے یا اس کے لئے فال نکالی جائے یا خود کاہن بنے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص کاہن تجویز کرے یا جو شخص خود جادوگر ہو یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص جادوگر کو تجویز کرے وہ ہم میں سے نہیں۔اور جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے شریعت محمدیہ سے کفر کا ارتکاب کیا۔‘‘ یعنی جو شخص خود بدفال لے یاکسی شخص کے لئے کوئی دوسرا فال لے اور وہ شخص جو خود کاہن ہو یاکسی کاہن کے کہنے پر چلے، اسی طرح وہ شخص جو خود جادو کرے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص جادو کرے۔ پس جو شخص بھی ان امور میں مبتلا ہوا، اس سے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بے زار ہیں، کیونکہ ان میں سے بعض کام تو شرک ہیں۔ جیسے کسی چیز سے بدفال لینا اور بعض کفر ہیں جیسے کہانت اور جادو۔ اور جو شخص ان پر رضامندی ظاہر کرے اور ان کی باتوں پر عمل کرے وہ ان کا ساتھی ہے۔ اس لئے اس نے باطل اور کفر کو قبول کرکے اس پر عمل کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ کاہن، نجومی، اور علم رمل جاننے والے کو عراف کہا جاتا ہے۔ جیسے وہ شخص جو اٹکل پچو سے کام لے کر غیب دانی، اور کشف وغیرہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو۔‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بارے میں جو حروف ابجد وغیرہ لکھ کر حساب کرتے اور نجوم سیکھتے تھے، فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسا عمل کرے اس کا آخرت میں کوئی حصہ اور اجر نہیں ہے۔
سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے اوپر سے ایک پرندہ چیختا ہوا گزر گیا؛ ایک آدمی کہنے لگا ’’بھلائی ہے بھلائی ہے۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ ’’دیکھو! اس میں خیر ہے نہ شر ہے۔‘‘ آپ نے یہ بات سنتے ہی اس کی تردید اور ممانعت فرمائی کہ کہیں اس کے دِل میں خیر و شر کی تاثیر کا عقیدہ نہ پیدا ہو جائے۔ صحیحین میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا عَدْوٰی وَ لَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَالُ۔ قَالُوْا: وَ مَا الْفَالُ؟ قَالَ: اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ۔))
’’ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے اور نہ بدشگونی کوئی چیز ہے اور مجھے نیک فال پسند ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:نیک فال کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اچھی بات کونیک فال کہتے ہیں۔‘‘