کتاب: آسان توحید - صفحہ 119
قبروں کی زیارت[1] اس کی تین اقسام ہیں: ۱۔ شرعی زیارت: یعنی قبروں کی اس وجہ سے زیارت کرنا کہ اس سے:
[1] اس باب میں بیان ہوگاکہ بزرگوں کی قبروں کے متعلق غلو کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُنہیں بتوں کی حیثیت دے دی جاتی ہے اور پھر اُن کی بھی پرستش ہونے لگتی ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ موطا میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:((اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعْبَدُ۔ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدَ))۔’’ اے اللہ! میری قبر کومورت[عبادت گاہ]نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ اُن اقوام پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو تین دیواروں میں چھپا دیا ہے۔یہ اللہ رب العزت کی خاص رحمت اور حفاظت و نگہبانی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو پوجا جاتا تو وہ بہت بڑی عبادت گاہ بن جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کو اس طرح محفوظ فرمایا۔ وہاں تک پہنچنا کسی بادشاہ کے اختیار میں بھی نہیں رہا۔ حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ وہ قبر، وثن کہلاتی ہے جسے قبروں کے پجاری ؛ درگاہوں کے مجاور[سجادہ نشین لوگ]چومنا چاٹنا شروع کر دیں یا ان کے تابوتوں سے برکت حاصل کرنے کا ارادہ کریں۔ افسوس کہ آج کل قبروں کی تعظیم اور ان کی عبادت کا فتنہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ الامان والحفیظ۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اُس درخت کو جڑ سے کاٹ دینے کا حکم صادر کیا جس کے نیچے بیٹھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر لوگوں سے بیعت لی تھی۔ یہ درخت کاٹنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں وہاں جا کر اُس کے نیچے نماز پڑھنے لگ گئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرک کا فتنہ پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے اس کو کٹوا دیا تھا۔ یہی ہوتا آیا ہے کہ اولیاء وصالحین کی قبروں کو ایسے ہی آہستہ آہستہ پوجا گاہ بنالیا جاتارہا ہے۔پھر نوبت ان کو بتوں کی شکل میں ڈھال لینے تک پہنچتی ہے۔ مکہ میں موجود بت اصل میں اولیاء و صالحین کی مورتیاں تھیں۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ آیت کریمہ:﴿اَفَرَاَیْتُمُ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی﴾میں مذکور اللَّات کے بارے میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قول اپنی سند سے عن سفیان عن منصور نقل کرتے ہیں کہ ’’لاتؔ[نیک انسان تھاجوکہ]حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، جب یہ فوت ہو گیا تو لوگ اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔‘‘