کتاب: آسان توحید - صفحہ 111
[1]۵۔ دولہا دلہن کے گھر میں داخل ہوتے وقت ذبح کرنا اور پھر اس خون پر چلنا۔
۶۔ اللہ کے لیے ذبح کرنا، مگر ذبح کے وقت غیراللہ کانام لینا۔
خلاصہ کلام!
۱۔ ذبح کرنا عبادت کاکام ہے۔غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا جائز نہیں یعنی حرام ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [الانعام]
’’فرما دیجیے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔‘‘
۲۔ غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا شرک اکبر ہے، جس کے کرنے والے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، فرمایا:
((لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ۔))[مسلم]
’’اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا۔‘‘
[1] [بقیہ حاشیہ]نے فرمایا:’’ اپنی نذر پوری کرلو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر کا پورا کرنا درست نہیں ہے۔ اور نہ وہ نذر پوری کرنا صحیح ہے جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلہ لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو، اگرچہ اس مقام پر اب نہ میلے کا اہتمام ہوتا ہو اور نہ بت پرستی ہو، تاہم ا س مقام پر اللہ تعالیٰ کے لئے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے اور مصیبت کے دائرے میں داخل ہے کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ پر میلہ لگانا یا کسی مقام پر ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا، خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کرنے اور نذر پورا کرنے کے لئے مانع اور رکاوٹ ہے۔‘‘ حدیث پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ غلط مقام پر صحیح نذر کو پورا کرنا بھی مصیبت ہے اور اس کاپورا کرنا بھی بالاجماع ممنوع ہے۔