کتاب: آسان توحید - صفحہ 105
[1] مشتمل ایسی عبادات کرکے برکت حاصل کرنا جن کی کوئی دلیل نہیں۔ ٭ اور ایسے اوقات سے تبرک حاصل کرنا جن کے بابرکت ہونے کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا وقت؛اسراء و معراج کی رات،پندرھویں شعبان کی رات۔یا وہ دن اور راتیں جن میں کوئی تاریخی واقعہ پیش آیا ہو۔ ۳۔ صالحین کی شخصیات یا ان کے بقایاجات سے ممنوع تبرک حاصل کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے آثار شریفہ کے علاوہ کسی کی ذات سے یا بقایا جات سے تبرک حاصل نہیں کیا جاسکتا۔یہ تبرک بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے ساتھ خاص تھا۔ تبرک کے متعلق چند اہم قواعد: ۱۔ تبرک حاصل کرنا عبادت کا کام ہے۔ اور کوئی عبادت اس وقت نہیں کی جاسکتی جب
[1] بقیہ حاشیہ ’’ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ اَنْوَاطٍ کَمَا لَہُمْ ذَاتَ اَنْوَاطٍ ‘‘ ’’ جیسے ان مشرکین کے لیے ذاتِ انواط ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر فر ما دیجئے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللّٰهُ اَکْبَر کہااورفرمایا:((اَنَّہَا السُّنَنُ قُلْتُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ لِمُوْسٰی اِجْعَلْ لَّنَآ اِلٰہًا کَمَا لَہُمْ اٰلِھٰۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ لَتَرْ کَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَا نَ قَبْلَکُمْ))(رواہ الترمذی و صححہ)۔ ’’ اللہ کی قسم! تم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو بنی اسرائیل نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ’’اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا ’’تم لوگ بڑی نا دانی کی باتیں کرتے ہو۔‘‘(پھرفرمایا)تم بھی اگلی اُمتوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘ مشرکین اُس درخت کی عظمت و جلالت کے پیشِ نظر اس کے پاس بیٹھنا باعث بر کت سمجھتے تھے۔ یعنی برکت حاصل کرنے کی نیّت سے اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اس لیے کہا کہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ یہ بھی عند اللہ پسندیدہ عمل ہے، لہٰذا ہم بھی تبرّک حاصل کیا کریں۔ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ شرک ہے تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی کیسے جرات کر سکتے تھے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِس بات کو بنی اِسرائیل کے قول سے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ دونوں نے الہٰ طلب کیا تھا جس کی وہ اللہ تعا لیٰ کے سوا عبادت کریں۔ دونوں کے مطالبہ کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں، تاہم معنیٰ ایک ہی ہیں کیونکہ الفاظ کی تبدیلی سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی۔