کتاب: آسان توحید - صفحہ 104
ہے۔جیسا کہ رمضان کا مہینہ؛ ذوالحجہ کے شروع کے دس دن۔شب قدر، اور ہر رات کا آخری تہائی حصہ۔ وقت سے تبرک ایسے حاصل ہوگاکہ: ان اوقات میں کثرت کے ساتھ نیکی کے کام کیے جائیں، اور مشروع طریقہ پر اللہ کی عبادت کی جائے۔ ۵۔ ان ماکولات کے کھانے سے برکت حاصل کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا ہے: جیسے زیتون کا تیل، شہد، دودھ،کلونجی، اور آب زمزم۔ دوم: …ممنوع تبرک: ۱۔ ممنوعہ جگہوں اور جمادات سے تبرک حاصل کرنا: مثلاً ان مقامات کی دیواروں اور دروازوں اور کھڑکیوں کو چھوکر ان سے برکت حاصل کرنا اوروہاں کی مٹی سے اپنے مریضوں کی شفایابی چاہنا جہاں کے متعلق برکت ثابت ہے۔ ٭ انبیاء وصالحین کی قبروں اور مزارات سے تبرک کا عقیدہ رکھنا۔ [1] ٭ بعض تاریخی مقامات سے تبرک حاصل کرنا: جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ؛ غار حراء اور غار ثور۔ ۲۔ ممنوعہ اوقات سے تبرک حاصل کرنا: ٭ جن اوقات میں برکت کا حصول ثابت ہے، ان اوقات میں غیر مشروع اور بدعت پر
[1] صالحین کی قبروں پر جاکر تبرک حاصل کرنا جس طرح کہ لات کے پجاری کرتے تھے، یا درختوں اور پتھروں سے برکت حاصل کرنا جیسے عُزّٰی اور مناۃ کے پرستاروں کا شیوہ تھا، یکساں نوعیت کا شرک ہے۔ لہٰذا جو شخص اس دور میں صالحین کی قبروں سے اسی طرح کی توقعات رکھتا ہے یا کسی درخت اور پتھر کی توقیر کرتا ہے اور اس سے مدد کا طالب ہوتا ہے اس نے بھی گویا مشرکین عرب جیسا فعل کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانے کے مسلمان اس سلسلے میں تو مشرکین عرب سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں۔سیدنا ابو واقد قریشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام حنین کی طرف جارہے تھے۔ اور ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا۔ راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کوذات انواط کہا جاتا تھا۔مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے۔ سیدنا ابو واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں چلتے چلتے ہم اس بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ: