کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 52
’’میں نے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کے طریقے اور حسن ہیئت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ [1]
مستدرک حاکم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ سچ بولنے والا کوئی نہیں دیکھا، مگر یہ کہ وہ اس کے والد ہوں ۔‘‘ [2]یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، علامہ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
مجلسی کی کتاب ’’بحار الانوار‘‘ میں ہے کہ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ سیّدہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جنگ کی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اے اللہ! یہ میری امت کے سب سے بدترین لوگ ہیں ، جن کو میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے‘‘، میرے اور ان کے درمیان وہی بات تھی جو ایک عورت اور اس کے دیوروں کے درمیان ہوتی ہے۔ [3]
جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن ود کو قتل کیا تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کھڑے ہوگئے اور ان کے سر کو بوسہ دیا۔ (الارشاد للمفید: ۵۵) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: کیا میں تمہیں خوش خبری نہ سناؤ ں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جنت والوں کی عورتوں کی چار سردار ہیں : مریم بنت عمران رضی اللہ عنہ ، فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہ اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہا ۔‘‘ [4]
اگر ان دونوں کے درمیان تھوڑا بھی اختلاف ہوتا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کو یہ عظیم خوش خبری نہیں سناتی۔
[1] سنن ابو داؤ د: باب ماجاء فی القیام: ۵۲۱۷، البانی اس کو سنن ترمذی میں صحیح کہا ہے: ۳۰۳۹، باب فضل فاطمۃ بنت رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ۔
[2] مستدرک حاکم: ۳/۱۷۵، حدیث: ۴۷۵۶۔
[3] بحار الانوار: ۳۳/۲۳۲، کشف الغمۃ: ۱/۱۵۸۔
[4] مستدرک حاکم: ۴۸۵۳، اس کی سند کو صحیح کہا ہے کہ اس کی سند صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہے، علامہ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔