کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 47
ابن عساکر نے لکھا ہے: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے بیٹے! تم ہمارے پاس آتے اور رہتے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ان کے پاس آیا، اس وقت حضرت عمر معاویہ کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے ہوئے تھے، دروازے پر ابن عمر تھے، ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں ملی تو میں واپس آگیا، بعد میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹے! آپ ہمارے یہاں آتے ہی نہیں ؟ میں نے کہا: میں آیا تھا، آپ حضرت معاویہ کے ساتھ تنہائی میں تھے، میں نے آپ کے بیٹے عبداللہ کو دیکھا کہ ان کو اجازت نہیں دی گئی تو میں واپس آگیا۔ انہوں نے جواب دیا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت کے حق دار ہو، پھر عمر نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔‘‘ [1]
خلافت عمر میں حسین رضی اللہ عنہ کی عمر کا اندازہ لگائیے، اس کے باوجود ان کی ملاقات کے اس حد تک خواہش مند تھے اور ان پر اتنی زیادہ توجہ دیتے تھے، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اہل بیت سے محبت کرتے تھے اور ان پر بڑی توجہ دیتے تھے؟
سیّدنا عمر کی طرف سے امت کے عالم جلیل سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تعریف کے سلسلے میں بخاری میں یہ روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عمر مجھے جنگ بدر کے شیوخ کے ساتھ اپنی مجلس میں شریک کرتے تھے، بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ ہمارے ساتھ اس نوجوان کو کیوں شامل کرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: ان کا تعلق جن سے ہے تم جانتے ہی ہو۔ [2]
ابن عبدالبر نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سلسلے میں فرمایا کرتے تھے: ’’قرآن کے بہترین ترجمان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ۔ جب وہ سامنے سے آتے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے: ادھیڑوں کا نوجوان آگیا، سوال کرنے والی زبان اور عقل مند دل آگیا۔ [3]
[1] تاریخ دمشق: ۱۴/۱۷۹۔
[2] صحیح بخاری: باب منزل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یوم الفتح، حدیث: ۴۲۹۴۔
[3] الاستیعاب لابن عبدالبر: ۱۴۴۷۔