کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 46
میں چاہتا ہوں کہ اسی طرح رہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے سے شروع کرو اور اقرب فالاقرب کو لکھو، یہاں تک کہ تم عمر کو وہیں رکھو جہاں اللہ نے اس کو رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن عمر نے بتایا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے اسامہ بن زید بن اسلم نے اپنے والد، انہوں نے اپنے والد کے واسطے سے بتایا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب ان کے سامنے کتاب پیش کی گئی، جس میں بنو تمیم بنو ہاشم کے بعد تھے اور بنو تمیم کے بعد بنو عدی تھے، میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا: عمر کو اسی کی جگہ پر رکھو، اور رسول اللہ کے قریبی رشتے دار سے شروع کرو۔ یہ دیکھ کر بنو عدی عمر کے پاس آئے اور کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں یا ابوبکر کے خلیفہ ہیں ، اور ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، انہوں نے مزید کہا: اگر آپ خود کو وہیں رکھتے جہاں ان لوگوں نے رکھا ہے تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے فرمایا: چھی چھی! بنو عدی والو! تم میری پیٹھ پر سوار ہوکر کھانا چاہتے ہو، تاکہ میں تمہارے خاطر اپنی نیکیوں کو ختم کردوں ، نہیں ، اللہ کی قسم! یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے، مجھ سے پہلے میرے دو ساتھی گزر چکے ہیں جنہوں نے ایک طریقے کو اپنایا، اگر میں ان کی مخالفت کروں تو میری مخالفت کی جائے گی، اللہ کی قسم! ہمیں جو بھی فضیلت دنیا میں حاصل ہوئی اور آخرت میں اللہ کے ثواب کی جو بھی امید ہے وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے، وہ ہم میں سب سے باعزت ہیں اور ان کی قوم عرب کی سب سے باعزت قوم ہے۔‘‘ [1] علامہ ذہبی نے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے بچوں کو کپڑے پہنائے، یہ کپڑے حسن اور حسین کے مناسب نہیں تھے یمن سے کپڑے منگوائے اور فرمایا: ’’اب میرا دل مطمئن ہے۔‘‘ [2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اہتمام کو دیکھئے، یہاں تک کہ ان کے کپڑوں کے سلسلے میں ان کے اہتمام پر نظر کرو، اور یہ سوچو کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ان کے نزدیک دوسروں کی طرح نہیں تھے۔
[1] الطبقات الکبریٰ: ۳/۲۹۵،۲۹۶۔ [2] سیر اعلام النبلاء: ۳/۲۸۵، تاریخ دمشق: ۱۴/۱۸۰۔