کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 45
کو ناراض کرو گے تو اس قبر والے کو تکلیف دو گے۔ [1] ابن عبدالبر کی کتاب ’’الاستیعاب‘‘ میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ہم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔‘‘ [2] ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں روایت کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب دیوان ترتیب دیا اور لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا تو حسن اور حسین کو ان کے والد علی رضی اللہ عنہم اور اہل بدر کے برابر وظیفہ مقرر کیا، کیونکہ وہ رسول اللہ کے رشتے دار تھے، ان میں سے ہر ایک کو پانچ ہزار وظیفہ مقرر کیا۔ [3] یہ واقعہ ابن سعد نے جبیر بن حویرث بن نقید سے تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیوان مرتب کرنے کے لیے مسلمانوں سے مشورہ کیا تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ہر سال اپنے پاس جمع ہونے والا مال تقسیم کرو اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھو۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ مال بہت زیادہ ہے، تمام لوگوں کے لیے کافی ہو جائے گا، اگر لوگوں کو شمار نہیں کیا جائے گا تو معلوم نہیں پڑے گا کہ کس نے لیا ہے اور کس نے نہیں ، مجھے اندیشہ ہے کہ یہ معاملہ پھیل جائے گا۔ ولید بن ہشام بن مغیرہ نے کہا: امیر المومنین! میں شام گیا تو وہاں میں نے بادشاہوں کو دیکھا کہ انہوں نے دیوان ترتیب دیا ہے اور لشکر بنائے ہیں ، چنانچہ آپ بھی دیوان بنائیے اور لشکر ترتیب دیجیے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے مشورے کو پسند کیا اور عقیل بن ابو طالب، مخرمہ بن نوفل اور جبیر بن مطعم کو بلا بھیجا، یہ سب قریش کے انساب کے ماہر تھے، اور ان سے فرمایا: لوگوں کو ان کے مراتب کے اعتبار سے ترتیب وار لکھو۔ انہوں نے لکھا اور بنو ہاشم سے شروعات کی، پھر ان کے بعد ابوبکر اور ان کے رشتے داروں کے نام لکھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے رشتے داروں کے نام لکھے، کیونکہ یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ترتیب دیکھی تو فرمایا: اللہ کی قسم!
[1] ۱۰۸۹، محقق وصی اللہ عباس نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ [2] الاستیعاب: ۱۸۷۱۔ [3] تاریخ دمشق لابن عساکر: ۱۴/۱۷۹۔