کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 34
عبداللہ بن عبداللہ بن حسن کے آزاد کردہ غلام حفص بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن حسن کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا: آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! عمر بن خطاب نے مسح کیا ہے، اور جو عمر کو اپنے اور اللہ کے درمیان رکھے تو اس نے مضبوط دلیل لی۔ [1] یعنی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ شرعی امور کے نقل کرنے میں ثقہ ہیں ۔
تاریخ دمشق میں ہی لکھا ہے کہ حفص بن قیس نے عبداللہ بن حسن سے مسح علی الخفین کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: موزوں پر مسح کرو، کیونکہ عمر بن خطاب نے موزوں پر مسح کیا ہے۔ میں نے کہا: میں آپ سے دریافت کر رہا ہوں کہ کیا آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں ؟ امام نے کہا: یہ تمہارے لیے کافی ہے، میں تم کو عمر سے نقل کرکے یہ بات بتا رہا ہوں اور تم مجھ سے میری رائے پوچھ رہے ہو، عمر مجھ سے اور مجھ جیسے زمین بھر لوگوں سے بہتر ہیں ۔ میں نے کہا: ابو محمد! لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمہاری طرف سے تقیہ ہے؟ انہوں نے مجھے جواب دیا جب کہ ہم منبر رسول اور قبر رسول کے درمیان میں تھے: اے اللہ! یہ خلوت اور جلوت میں میری بات ہے، چنانچہ تم ہم کو میرے بعد کسی کی بات نہ بتاؤ ۔ پھر کہا: جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ علی مظلوم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بعض امور کا حکم دیا تھا جن کو انہوں نے نافذ نہیں کیا تو یہ علی کی حقارت کے لیے کافی ہے، یہ نقص ہے کہ لوگ یہ دعویٰ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو چند امور کا حکم دیا اور انہوں نے ان کو نافذ نہیں کیا۔ [2]
تاریخ دمشق میں ہی محمد بن قاسم اسدی ابو ابراہیم سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رحمہ اللہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا، وہ اس تذکرے پر رو پڑے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی اور کپڑا بھیگ گیا۔ [3]
[1] تاریخ دمشق: ۲۹/۲۵۵۔
[2] تاریخ دمشق: ۲۹/۲۵۶۔
[3] تاریخ دمشق: ۲۹/۲۵۶۔