کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 25
محمد بن حنفیہ سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ عائشہ مقامِ مربد میں عثمان کے قاتلوں پر بد دعا کر رہی ہیں تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا یہاں تک کہ چہرے تک لے گئے اور فرمایا: ’’میں اونچی اور نیچی زمین میں یعنی ہر جگہ عثمان کے قاتلوں پر لعنت کرتا ہوں ۔ آپ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ کہی۔‘‘ [1]
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان گہرے تعلقات پر دلالت کرنے والی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہے کہ سیّدنا علی نے اپنی دختر ام کلثوم کی شادی سیّدنا عمر بن خطاب کے ساتھ کر دی، جیسا کہ تراجم، تاریخ، سیرت، حدیث اور فقہ کی کتابوں میں یہ روایت ہے۔[2]
تاریخی کتابوں کے مطابق سیّدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی مالک اشتر نخعی[3] شیخین سیّدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں : ’’اما بعد! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عزت سے سرفراز کیا، پس انہوں نے امت کو مجتمع کیا اور لوگوں پر غالب کیا، جب تک اللہ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، پھر اللہ عزوجل نے ان کو اپنی خوشنودی اور اپنی جنتوں کی طرف منتقل کیا، پھر آپ کے بعد صالح لوگ خلیفہ بنے جنہوں نے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا، اللہ ان کو بہترین اعمال کا بدلہ عطا فرمائے۔‘‘ [4]
[1] فضائل الصحابۃ حدیث: ۷۳۲، محقق نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
[2] اس شادی سے ان جھوٹی روایتوں کا بطلان ہوتا ہے کہ عمر بن خطاب نے حضرت فاطمہ بنت محمد کو لات ماری، جس کی وجہ سے ان کا حمل گر گیا! فرض کر لو کہ ایک شخص نے تمہاری بیوی کو مارا اور وہ آپ کی بیوی کو قتل کرنے کا سبب بنا اور آپ کے بچے کو مار ڈالنے کا ذریعہ بنا، کیا تم اسی کی شادی اپنی بیٹی کے ساتھ کرو گے؟ کیا تم اس کو اپنا سسرالی رشتے دار بنانے پر راضی ہو جاؤ گے؟ بلکہ اپنے ایک بچے کا نام اسی کے نام پر رکھو گے! اس تاریخی حقیقت سے واقف ہونے کے لیے رجوع کیجیے: زواج عمر بن الخطاب من ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب۔ حقیقۃ الافتراء۔ از: سید احمد ابراہیم ’’ابو معاذ اسماعیلی‘‘۔
[3] مالک اشتر نخعی: وہ مالک بن حارث اشتر نخعی ہیں ، شیخ عباس قمی کے مطابق نخع یمن کے علاقے مذ حج کا بہت بڑا قبیلہ ہے، اور نخع کا نام جسر بن عمرو بن علہ بن جلد بن مالک بن ادد ہے، الکنی والألقاب: ۳/۲۴۴۔
[4] الفتوح۔ از: ابن اعثم: ۱/۳۸۵۔