کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 24
کرنے کے لیے خود جائیں گے تو ان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے آپ کو حادثہ پیش آسکتا ہے، اس صورت میں مسلمانوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی، آپ کے بعد کوئی مرجع نہیں رہے گا جس کی طرف وہ رجوع کریں ، چنانچہ آپ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے جنگوں کے تجربہ کار کسی دوسرے شخص کو روانہ کیجیے اور اس کے ساتھ جنگوں میں مہارت رکھنے والوں اور خیر خواہوں کو بھیج دیجیے، اگر اللہ فتح سے ہمکنار کرے تو یہی آپ کی کواہش ہے، اگر شکست ہوگی تو آپ لوگوں کے لیے جائے پناہ ہوں گے اور مسلمانوں کے مرجع رہیں گے۔‘‘[1]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’کیا ہی خوب کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے کجی کو درست کیا، بیماری کی دوا کرنے کی سنت قائم کی، اور فتنے کو دور کر دیا! پاک و صاف اور کم عیب لے کر دنیا سے گئے، دنیا کی بھلائی کو حاصل کیا اور اس کی برائی پر سبقت کرگئے، اللہ کی کامل اطاعت کی اور اللہ کے حق کے مطابق اس کا تقویٰ اختیار کیا، اس حال میں کوچ کیا کہ لوگ مختلف راستوں پر ہیں ، جہاں گمراہ کو ہدایت نہیں ملتی اور ہدایت یافتہ کو یقین نہیں ہوتا۔‘‘ [2]
سیّدنا علی بن ابو طالب نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے: ’’اور لوگوں کا ایک خلیفہ بنا جس نے ان کو درست کیا اور خود بھی درست رہا، یہاں تک کہ دین کو بلندی (جران) تک پہنچایا۔‘‘
ابن ابی حدید کہتے ہیں کہ ’’جران‘‘ گردن کے اگلے حصے کو کہتے ہیں اور یہ خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ [3]
امام احمد نے محمد بن حاطب سے روایت کیا ہے کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’جو لوگ جنت کے حصول میں ہم سے سبقت کرگئے ان میں سے عثمان رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔‘‘ [4]
[1] نہج البلاغۃ، خطاب نمبر ۱۳۴، من کلام لہ رضی اللّٰه عنہ وقد شاورہ عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ نفی الخروج الی غزوۃ الروم۔
[2] نہج البلاغۃ: ۲۲۲، من کلام لہ رضی اللّٰه عنہ فی الثناء علی عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ ۔
[3] شرح نہج البلاغۃ لابن ابی حدید: ۱۲/۳۔
[4] فضائل الصحابۃ حدیث: ۷۷۱، اس کتاب کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔