کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 23
جس نے مجھے دیکھا یا اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا، یا اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھنے والے کے دیکھنے والے کو دیکھا۔‘‘ [1] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے (جو صحبت رسول کی سب سے کم صورت ہے) بلکہ ان کو دیکھنے والے، بلکہ اس شخص کو دیکھنے والے کو دیکھے جو آپ کے دیکھنے والے کے دیکھنے والے کو دیکھے، اس کی یہ عظیم فضیلت ہے تو ہم اس نسل کے خلاف کیسے جرات کرسکتے ہیں جس کا تزکیہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا گیا ہے۔
حضرت علی نے اپنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے حالات اور دشمنوں کے خلاف ان سب کی بہادری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم اپنے باپوں ، بچوں ، بھائیوں اور چچاؤ وں کو قتل کر رہے تھے، اس سے ہمارے ایمان، فرمانبرداری، صحیح راستے پر چلنے، تکلیف برداشت کرنے کی قوت اور دشمن کے مقابلے کی جدوجہد میں اضافہ ہی ہوتا تھا، ہم میں سے ایک فرد اور دوسرا ہمارے دشمنوں کا فرد: ایک دوسرے سے دو بیل کے جھگڑنے کی طرح جھگڑتے تھے، دونوں اس تاک میں رہتے تھے کہ ہم میں سے کون دوسرے کو موت کی نیند سلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کبھی ہمارا آدمی مارا جاتا اور کبھی دشمنوں کا آدمی مارا جاتا، جب اللہ نے دشمنوں کے خلاف جہاد میں ہمارے اخلاص کو دیکھا تو اس نے ہمارے دشمنوں پر شکست اور ہم پر فتح نازل کی، یہاں تک کہ اسلام مکمل طور پر مستحکم ہوگیا، اور اس کے پاؤ ں جم گئے، میری زندگی کی قسم! اگر ہم وہ کرتے جو تم نے کیا ہے تو دین کا کوئی ستون مستحکم نہیں ہوتا اور ایمان کی کوئی ٹہنی شاداب نہیں رہتی، اللہ کی قسم! تم دودھ کی خون دوہتے اور تم نادم و شرمسار ہوتے۔‘‘[2]
روم کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جب سیّدنا عمر نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ اس دشمن کے خلاف جنگ
[1] بحار الانوار للمجلسی: ۲۲/۳۱۳، امالی ابن الشیخ: ۲۸۱۔ ۲۸۲۔
[2] نہج البلاغۃ: ۱۰۵، من کلامٍ فی وصف حربہم علی عہد رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ۔