کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 19
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ مندرجہ ذیل آیتوں کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی افضلیت کے قائل ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ﴾ (الفتح:۱۸)
’’اللہ مومنین سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تمہارے ہاتھوں پر بیعت کر رہے تھے۔‘‘
اللہ کا دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ (التوبہ:۱۰۰)
’’اور جو سابقین اولین مہاجرین اور انصار ہیں اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
جس کے بارے میں اللہ نے کہہ دیا کہ اللہ اس سے راضی ہے تو ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اللہ کی ناراضگی کا مستحق بن جائے، اور اللہ نے تابعین کو اپنی رضا میں اسی شرط کے ساتھ شامل کیا ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحابہ کی پیروی کریں ، ان کے بعد جو بھی تابعی ان کی عزت کو کم کرے گا وہ مخلص نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق میں شامل نہیں ہے۔ [1]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں حسن بصری کی بات کیا خوب ہے، یہ بات انہوں نے اس
[1] اعتقاد ائمہ الحدیث۔ از: ابوبکر اسماعیلی: ۱/۷۱، اس کی تفصیلات کے لیے دیکھئے: لمعۃ الاعتقاد۔ از: ابن قدامہ مقدسی: ۱/۱۷۱، شرح العقیدۃ الطحاویۃ، از: ابن ابی العز: ۱/۴۸۵، وغیرہ دوسری کتابیں ۔