کتاب: آل رسول و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ثنا خواں - صفحہ 17
کافی ہیں ۔‘‘
﴿لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ﴾(الحشر: ۸)
’’اس مال کے حقدار مہاجرین فقراء ہیں جن کو ان کے گھروں اور مالوں سے نکال دیا گیا، وہ اللہ کے احسان اور رضا مندی کی تلاش میں ہیں ، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ سچے ہیں ، سچائی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منافق نہیں ہیں ۔
اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کے سچا ہونے کی خبر دی بھی نہیں جاتی تو ان کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ انہوں نے ہجرت کی، اللہ کے رسول کی مدد کی، اپنی جانوں اور مال و دولت کو قربان کر دیا، اپنے باپوں اور بچوں کو قتل کر دیا، دین کے بارے میں ایک دوسرے کو نصیحت کی، ان کا ایمان کامل تھا اور ان کو یقین کی صفت حاصل تھی۔
حدیث نبوی میں وارد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل:
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھیوں کے سلسلے میں اللہ کا میں حوالہ دیتا ہوں ، میرے ساتھیوں کے سلسلے میں اللہ کا میں حوالہ دیتا ہوں ، میرے بعد تم ان کو نشانہ نہ بناؤ ، ان سے محبت در حقیقت مجھ سے محبت کا نتیجہ ہے اور ان سے بغض مجھ سے بغض کی وجہ سے ہے، اور جو ان کو تکلیف دے گا تو اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو قریب ہے کہ اللہ اس کو پکڑ لے۔‘‘ [1]
[1] سنن ترمذی: باب فیمن سب اصحاب النبی، حدیث: ۳۸۶۲، امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے، بعض نسخوں میں حسن غریب ہے، حدیث غریب کی تعریف یہ ہے کہ اس کو صرف ایک راوی نے روایت کیا ہو، صحیح ابن حبان: ۶۲۵۶، اس کی سند میں ضعف ہے۔