کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 45
بخاری میں خالد حذاء سے روایت کی ہے کہ عکرمہ نے کہا: حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھ سے اور اپنے بیٹے علی سے کہا: ابو سعید کے پاس جاؤ اور ان کی بات سنو! چنانچہ ہم ان کے پاس چلے گئے، وہ ایک باغ میں تھے، وہاں کچھ کام کر رہے تھے، انہوں نے اپنی چادر لی اور پالٹی مار کر بیٹھ گئے، پھر وہ ہم کو بتانے لگے، یہاں تک کہ جب مسجد نبوی کی تعمیر کا تذکرہ آیا تو انہوں نے کہا: ہم ایک ایک اینٹ ڈھو رہے تھے اور عمار دو دو اینٹ ڈھو رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو ان سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: ’’عمار کا ناس ہو! باغی جماعت ان کا قتل کرے گی، یہ ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہیں ، اور وہ ان کو جہنم کی طرف بلا رہے ہیں ‘‘ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمار کہا کرتے تھے: میں فتنوں سے اللہ کے حضور پناہ مانگتا ہوں ۔
امام مسلم نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: مجھ سے بہتر شخص ابو قتادہ نے مجھ سے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے وقت عمار سے فرمایا: ’’ابن تیمیہ کے لیے بری خبر ہے کہ اس کو باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘
امام مسلم نے ہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘ [1]
اس سے بھی حضرت علی کی امامت کے صحیح ہونے اور ان کی اطاعت واجب ہونے کی دلیل ملتی ہے، ان کی اطاعت کی طرف بلانے والا جنت کی طرف بلانے والا ہے، اور ان کے خلاف جنگ کے لیے بلانے والا جہنم کی طرف بلانے والا ہے، (چاہے وہ تاویل کا سہارا لے رہا ہو) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں تھا، اسی بنیاد پر حضرت علی کے ساتھ جنگ کرنے والا غلط ہے، جب وہ تاویل پیش کرے، یا بغیر تاویل کے جنگ کرے تو وہ باغی ہے، یہی ہمارے اصحاب کا صحیح قول ہے، علی کے خلاف جنگ کرنے والوں کو غلط ٹھہرانے کا ہی حکم ہے، یہی ائمہ و فقہاء کا مسلک ہے، جنہوں نے اس کو دلیل بنا کر
[1] مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ۴/۴۳۷۔