کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 35
بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (الحشر: ۹)
’’اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو ان سے پہلے دارالاسلام یعنی مدینہ میں رہائش پذیر ہیں اور ایمان لائے ہیں ، جو اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو ملتا ہے اُس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے، اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں چاہے ان پر فاقہ کشی ہو، اور جس شخص کو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا وہی لوگ کامیاب ہیں ۔‘‘
ان لوگوں نے کہا: نہیں ۔ آپ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾(الحشر: ۱۰)
’’اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں : اے ہمارے پروردگار! ہماری اور ہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرما۔ اور ہمارے دلوں میں ان کی دشمنی نہ رکھ جو ایمان لاچکے ہیں ، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔‘‘
میرے پاس سے نکلو، اللہ تمہارے ساتھ سخت معاملہ فرمائے۔ الخ
یہ امام علی بن حسین کی سمجھ اور عقل مندی ہے، آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے، صحابہ اور اہل بیت کی ایک دوسرے کی تعریف سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ’’نہج البلاغۃ‘‘ پڑھنے والے کو بہت سے ایسے خطبے اور واضح اشارے ملیں گے جو سب کے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف میں ہیں ، یہاں صرف ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے، جس میں قرآن کریم کا حوالہ دیا گیا ہے۔