کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 32
جی ہاں ! یہ ایک حقیقت ہے کہ اوس اور خزرج انصار کے دو خاندانوں کے درمیان انتہائی درجے کی دشمنی بھڑکی ہوئی تھی، لیکن اللہ سبحان وتعالیٰ نے اس دشمن کو ختم کر دیا اور اس کو محبت و الفت میں تبدیل کردیا۔
محترم قارئین! اس میں آپ کا کیا نقصان ہے کہ آپ اس پر ایمان لے آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں اچھا گمان رکھیں ، ان کے پروردگار اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے بارے میں گواہی دی ہے اور ان پر کیے ہوئے اپنے احسان کو یاد دلایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہیں ، ان کے دل صاف ہیں ، ان کے دلوں میں محبت و الفت پیوست ہوگئی ہے، عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، مخصوص سبب کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، اس عمومیت پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے، اللہ فرماتا ہے:
﴿ وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾(الانفال: ۶۲، ۶۳)
’’اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے، وہ ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے ذریعہ تمہاری تائید کی، باہمی الفت بھی ان کے دلوں میں اسی نے ڈالی، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا، یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے، وہ غالب آنے والا اور حکمتوں والا ہے۔‘‘
محترم قارئین! اس آیت پر غور کریں اور بار بار اس کی تلاوت کریں ، کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس احسان کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے ان حضرات کی مدد فرمائی اور مومنین پر احسان کا تذکرہ کیا ہے، یہاں ہمارے مطلب کی چیز یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین میں موجود پوری دولت بھی لٹا دیتے تو یہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی احسان