کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 31
تبوک میں صحراء اور بے آب و گیاہ علاقوں کا سفر طے کیا، بدر، خندق، خیبر و حنین اور مکہ وغیرہ جنگوں میں فتوحات کے مرحلے میں بھی زندگی گزاری۔ نفسیاتی اثرات کے بارے میں غور کریں ، جی ہاں ! ان کے درمیان محبت اور صحبت کیسے نہیں رہ سکتی ہے، آپ کے ذہن و دماغ سے یہ بات غائب نہ رہے کہ ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ ان کے قائد، مربی اور عالم تھے، آپ کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے رب کی طرف سے اس جماعت کے قائد یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی نازل ہو رہی تھی، ان حضرات کے بارے میں غور کرو، ان سبھوں کے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مجتمع تھے، اس جماعت کے نفسیاتی اثرات کے بارے میں غور کرو، جن کے دل آپس میں جڑے ہوئے تھے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت و مودت تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے دل مجتمع تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کی تربیت کا فریضہ انجام دیا تھا، ان کے ساتھ زندگی گزاری تھی، جب کہ قرآن کا نزول ہو رہا تھا، میرے ساتھ بیٹھ کر ان مواقف اور ان دنوں کا تصور کریں ، ’’صحبت رسول اللہ‘‘ میں اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ محبت و مودت اور تال میل ان کے درمیان عام تھی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ‎﴾ (آل عمران: ۱۰۳) ’’اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو باہم جوڑ دیا، جس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ برائے مہربانی اس آیت کریمہ کے معانی پر غور کریں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اصحاب رسول کے سلسلے میں یہ گواہی ہے کہ اس نے ان کے دلوں کو جوڑا ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا صحابہ کرام پر احسان ہے، اور اللہ کے فضل و احسان کو کوئی بھی روک نہیں سکتا۔