کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 28
کے پاس آئے اور اس کو لے کر اپنے گھر آئے، اس کے علاوہ بہت سی روایتیں ہیں جن کا تذکرہ ’’بحار الانوار‘‘ میں ہے، یہ عجیب و غریب انکار ہے، اصل جواب یہ ہے کہ یہ تقیہ اور مجبوری کی وجہ سے پیش آیا ہے… الخ [1] میں کہتا ہوں : ’’الکافی‘‘ کے مصنف نے اپنی کتاب میں بہت سی روایتیں نقل کی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے: باب و ہ ’’متوفی عنہا زوجہا‘‘ جس کے ساتھ جماع ہوچکا ہو، کہاں عدت گزارے گی اور اس پر کیا واجب ہے، حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، کیا وہ اپنے گھر میں عدت گزارے گی یا جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو سیّدنا علی علیہ السلام ام کلثوم کے پاس آئے اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ [2] محترم قارئین! میں نے بعض معاصرین سے شادی کے بارے میں دریافت کیا، اس کا بہترین جواب عدالت اوقاف، میراث کے شیخ عبدالمجید خطی نے دیا ہے، انہوں نے کہا ہے: اسلام کے شہسوار امام علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی کرنے کے سلسلے میں کوئی نافرمانی نہیں کی ہے، آپ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لیے بہترین نمونہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کی دختر ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادی کی، ابو سفیان کا مقام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں ہے، اس شادی کے بارے میں جو دھول اڑائی جاتی ہے اس کا مطلقاً کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ لوگوں کی یہ بات کہ ایک شیطان نے خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ام کلثوم کی شکل اختیار کی، تاکہ ان کی جگہ کھڑی رہے، یہ بات ہنسانے والی بھی ہے اور رلانے والی بھی،
[1] مرآۃ العقول: ۲/۴۵۔ [2] الفروع من الکافی ۶/۱۱۵۔