کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 24
اور ساتھیوں کے تعاون سے اس رشتے کو قبول کرانے اور منوانے کی کوشش کرتا ہے، عورت کے گھر والے اور رشتے دار لڑکے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ، ان کو رشتہ قبول کرنے یا ٹھکرانے کا حق ہے، یہاں تک کہ اگر ہدایا دئیے جائیں یا نکاح سے پہلے ہی مہر ادا کر دیا جائے تو بھی نکاح ہونے سے پہلے پہلے رشتہ ٹھکرانے کا حق رہتا ہے۔ عقد نکاح میں گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، نکاح کی تشہیر کرنا ضروری ہے، یہ شرعی حکم ہے، کیوں ؟ کیونکہ نکاح کے بعد بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں ، اجنبی رشتے دار بن جاتے ہیں اور دو خاندانوں کے درمیان سسرالی رشتہ قائم ہو جاتا ہے، نکاح کی وجہ سے شوہر پر بہت سی عورتیں ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہیں یا بیوی کے ساتھ نکاح باقی رہنے تک بہت سی عورتیں حرام رہتی ہیں ، اس مختصر سے کتابچے میں اس موضوع کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے، یہاں صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ اس موضوع کی اہمیت یاد دلائی جائے، تاکہ اصل موضوع میں اس کا فائدہ حاصل ہو، پس مندرجہ ذیل معلومات پر غور کرو۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی بہن کی شادی ان کے والد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کی، کیا ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی اُن سے خوف زدہ ہوکر ان کے ساتھ کی؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہادری کہاں چلی گئی؟ اپنی بیٹی سے ان کی محبت کہاں چلی گئی؟ کیا وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک ظالم سے کر رہے ہیں ؟ اللہ کے دین کی خاطر آپ کی غیرت کہاں چلی گئی؟ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں ، اتنے سوالات اٹھتے ہیں کہ جن کی کوئی انتہا نہیں ، یا آپ یہ بات کہیں گے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت عمر سے اس لیے کی کہ آپ کو ان پر اطمینان تھا اور آپ خود ان سے شادی کروانا چاہتے تھے، جی ہاں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرعی طریقے پر صحیح شادی کی، جس میں کوئی شک اور شائبے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ (اگلے صفحات میں ؟؟ کی تاکید کے لیے علماء کے اقوال بیان کیے جائیں گے، جن سے طعن و تشنیع کرنے والوں کی تردید ہوگی) اس شادی سے دو خاندانوں کے درمیان مضبوط تعلقات اور محبت کا پتہ چلتا ہے، یہ محبت اور تعلق کیسے نہیں