کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 19
نہیں ہیں ، اس کرب ناک واقعے کے دن عمر بن علی بن ابو طالب اور عمر بن حسن نے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ۔
ان ائمہ کرام رحمہ اللہ کا اپنی اولاد کا نام ابوبکر، عمر، عثمان اور عائشہ وغیرہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام پر رکھنے کے مسئلے کا شافی اور اطمینان بخش جواب ہم کو نہیں ملتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ناموں کے سلسلے میں یہ کہیں کہ نام کی کوئی دلالت اور معنی ہی نہیں ہے، اور نہ یہ ممکن ہے کہ ہم اس مسئلے کو من گھڑت کہیں ، کیونکہ اس کا مطلب سبھی کتابوں کی سبھی روایتوں پر طعن و تشنیع کرنا ہوگا، کیونکہ جس طبقے کو جو روایت پسند نہیں آئے گی وہ یہ کہیں گے کہ یہ جھوٹ اور من گھڑت ہے، بلکہ اس دنیا کی خواہشات سے مطابقت نہ رکھنے والی ہر روایت کو دھتکارا جائے گا، ورنہ بڑی آسانی سے یہ کہہ کر اس کی تردید کی جائے گی کہ یہ من گھڑت ہے!! خصوصاً اس صورت میں کہ ہر عالم کو روایتوں کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا حق ہے، اسی وجہ سے ان کے پاس کوئی ضابطہ اور اصول نہیں ہے، یہ ہنسانے اور رلانے والی لطیف بات ہے کہ یہ کہا جائے: کبارِ صحابہ رضی اللہ عنہم (جن کا تذکرہ ابھی ہوچکا ہے) کے نام پر نام رکھنا ان کو گالی دینے اور ان کے سب و شتم کے لیے ہے!! یہ کہا گیا ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کی محبت حاصل کی جائے، کیونکہ امام نے اپنی اولاد کا نام اس لیے رکھا، تاکہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ وہ خلفاء سے محبت کرتے ہیں اور وہ ان سے راضی ہیں !! یعنی تقیہ کرنے کے لیے یہ نام رکھا کرتے تھے۔
اللہ کی پناہ! کیا ہمارے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ امام نے اپنے ساتھیوں اور عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے کچھ کام کیے؟
امام اس کی خاطر اپنی اولاد اور ذریت کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟
وہ کون لوگ ہیں جو ان ناموں کی وجہ سے امام کو چاہیں گے؟ امام کی بہادری اور عزت نفس اس بات سے انکار کرتی ہے کہ وہ خود کو اور اپنی اولاد کو بنو تیم، بنو عدی یا بنی امیہ کی وجہ سے ذلیل کریں ، امام کی سیرت پڑھنے والے کے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے اور اس کو یقین ہو جاتا ہے کہ امام ان جھوٹی روایتوں کے بر خلاف لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے، جن روایتوں