کتاب: آل رسول واصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے پر رحم کرنے والے - صفحہ 12
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ‎﴾ (الفتح: ۲۹) ’’محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور جو آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بڑے سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہیں ، تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے کہ وہ اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں ہیں ، سجدے کے اثر کی وجہ سے ان کے چہروں پر ان کے آثار نمایاں ہیں ، تورات میں یہ ان کا وصف بیان کیا گیا ہے، اور انجیل میں ان کا وصف یہ ہے کہ جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس نے اس کو طاقت ور کیا، پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی۔‘‘ تیسرا سبب: … اس حقیقت کو مستحکم بنانا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے تھے اور رحمت کی صفت ان کے دلوں میں پیوست تھی، یہ ایک حقیقت ہے، جس سے ان روایتوں ، افسانوں اور من گھڑت کہانیوں کی تردید ہوتی ہے جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ تصویر بنتی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے والے وحشی تھے، اور ان کے درمیان دشمنی عام بات تھی!! جی ہاں ! جب تمہارے دل میں یہ بات پیوست ہو جائے گی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے تھے اور تمہارے دل کی گہرائیوں میں یہ بات بیٹھ جائے گی تو دل مطمئن ہو جائے گا اور جن کے لیے اللہ نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے ان کا کینہ دل سے نکل جائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا