کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 76
کے ہاں گیا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے سمجھا کہ انہوں نے اندر آنے کی اجازت دے دی ہے۔ میں گھر میں داخل ہوا تو وہ تنہائی میں رانوں سے کپڑا ہٹا کر بیٹھے تھے۔مجھے دیکھتے ہی آزردہ خاطر ہوئے اور رونے لگے اور فرمایا:’’وَاللّٰهِ لَقَدْ نَظَرْتَ إِلیٰ مَوْضِعٍ لَمْ یَنْظُرْ أَحَدٌ مُنْذُ عَقَلْتُ‘‘(السیر :ص۱۱۲ج۹التذکرہ: ص۸۱۷ ج۲)اللہ کی قسم جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تیرے سوا میری رانوں کو کسی نے بھی نہیں دیکھا ہے۔اس سے آپ ہمارے اسلاف کے کردار کی بلندی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔البتہ میاں بیوی کا مسئلہ اس سے مختلف ہے۔اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اور علماء ان کے لئے اسے جائز قرار دیتے ہیں۔تا ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میاں بیوی کا بھی بلا ضرورت ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا مکروہ ہے۔(فتح الباری: ص۳۳۹ ج۹)اسی طرح علاج معالجہ کی صورت یا تحقیق وتفتیش کی ضرورت استثنائی نوعیت کی ہے۔﴿لَا یُکَلَّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَھَا ﴾کا یہی تقاضا ہے۔ خاوند کے پاس دوسری عورت کا تذکرہ اسلام نے عورت کی عزت وعصمت کی جس طرح حفاظت کی ہے کسی بھی دوسرے مذہب میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اندازہ کریں کہ اسلام نے ان راستوں کو بھی بند کر دیاہے جو غیر محسوس انداز سے بھی عورت کی عفت و عصمت کے لئے خطر ناک ہو سکتے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا تُبَاشِرِ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ تُنْعِتُھَا لِزَوْجِھَا کَأَنَّہٗ یَنْظُرُ إِلَیْھَا‘‘ (بخاری ومسلم ) ’’کہ کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ اس طرح نہ رہے سہے کہ اس کی حالت اس طرح اپنے خاوند سے بیان کر ے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ‘‘ اس لئے کسی بھی عورت کواپنے خاوندکے پاس کسی دوسری عورت کے حسن وجمال اور اس کے جسم کے بناؤسنگار کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بھی فتنے سے خالی نہیں۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کے سامنے عورت کے جوتے کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔جو